75%

بستی بھی سمندر بھی بیاباں بھی مرا ہے

بستی بھی سمندر بھی بیاباں بھی مرا ہے

آنکھیں بھی مری خواب ِ پریشاں بھی مرا ہے

*

جو ڈوبتی جاتی ہے وہ کشتی بھی ہے میری

جو ٹوٹتا جاتا ہے وہ پیماں بھی مرا ہے

*

جو ہاتھ اٹھے تھے وہ سبھی ہاتھ تھے میرے

جو چاک ہوا ہے وہ گریباں بھی مرا ہے

*

جس کی کوئی آواز نہ پہچان نہ منزل

وہ قافلہ بے سر و ساماں بھی مرا ہے

*

ویرانہ مقتل پہ حجاب آیا تو اس بار

خود چیخ پڑا میں کہ عنواں بھی مرا ہے

*

وارفتگی صبح بشارت کو خبر کیا

اندیشہ صد شام ِ غریباں بھی مرا ہے=

*

میں وارث گل ہوں کہ نہیں ہوں مگر اے جان

خمیازہ توہین ِ بہاراں بھی مرا ہے

*

مٹی کی گواہی سے بڑی دل کی گواہی

یوں ہو تو یہ زنجیر یہ زنداں بھی مرا ہے

٭٭٭