بستی بھی سمندر بھی بیاباں بھی مرا ہے
بستی بھی سمندر بھی بیاباں بھی مرا ہے
آنکھیں بھی مری خواب ِ پریشاں بھی مرا ہے
*
جو ڈوبتی جاتی ہے وہ کشتی بھی ہے میری
جو ٹوٹتا جاتا ہے وہ پیماں بھی مرا ہے
*
جو ہاتھ اٹھے تھے وہ سبھی ہاتھ تھے میرے
جو چاک ہوا ہے وہ گریباں بھی مرا ہے
*
جس کی کوئی آواز نہ پہچان نہ منزل
وہ قافلہ بے سر و ساماں بھی مرا ہے
*
ویرانہ مقتل پہ حجاب آیا تو اس بار
خود چیخ پڑا میں کہ عنواں بھی مرا ہے
*
وارفتگی صبح بشارت کو خبر کیا
اندیشہ صد شام ِ غریباں بھی مرا ہے=
*
میں وارث گل ہوں کہ نہیں ہوں مگر اے جان
خمیازہ توہین ِ بہاراں بھی مرا ہے
*
مٹی کی گواہی سے بڑی دل کی گواہی
یوں ہو تو یہ زنجیر یہ زنداں بھی مرا ہے
٭٭٭