اردو ادب میں مرثیے اور سلام کی حیثیت
تسلیم الہیٰ زلفیؔ ( کینیڈا)
سانحۂ کربلا کے حوالے سے اُردو زبان مں مرثیہ اور سلام ایک ایسی صنفِ ادب بن گئی ہے جو کسی دوسری زبان مںن نہںل پائی جاتی۔ میر انیسؔ اور دبیرؔ نے اُردو مرثیے اور سلام کو جس بلندی پر پہنچایا وہ کسی سے پوشیدہ نہںن ہے۔
ہر صنفِ ادب مںے وقت کے ساتھ نِت نئی تبدیلیاں رُو نما ہوئںا اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ لہذا دیکھنا یہ ہے کہ مرثیے اور سلام مں کس قسم کی تبدیلیاں ہوئی ہںا۔ اور جدید مرثیہ اور سلام کیا ہے۔ مرثیے اور سلام کو فکری بنیادوں آگے بڑھانے والے کون ہںھ۔ اور مرثیے اور سلام کی ہتئں کی تبدیلیوں سے کیا صورتِ حال بنی ہے۔
کسی بھی صِنفِ ادب کے فروغ کتابں۔، رسائل اور ناقدین اہم کردار ادا کرتے ہںر۔ ہم دیکھتے ہںر کہ مرثیہ اور سلام ایک مقبول صِنفِ ادب ہونے کے باوجود امام بار گاہوں تک محدود کر دی گئی ہے۔ ادبی رسائل مںس مراثی اور سلام شامل نہں r کئے جاتے ہںے۔ مختلف شعراء کے مرثیوں اور سلام کے مجموعے شائع ضرور ہوتے ہںہ لیکن اُن کی تشہیر دیگر ادبی کتابوں کی صورت نہیں ہوتی۔ جبکہ ہمارے بیشتر ناقدین اس جانب متوّجّہ نہںک ہوتے۔ ان کی لا تعلقی کے اسباب کیا ہںر۔ ۔اور یہ کہ مرثیے اور سلام کی ادب مںہ کیا حیثیت ہے ؟
ادب کوئی ایسی مُجرّد حقیقت نہںب ہے کہ وہ مُعلّق فضاء مںی لکھا جائے۔ پچھلے ڈیڑھ دو سو برس مں؟ ہمارے معاشرے مں تہذیبی اور سیاسی انداز کی جو تبدیلیاں آئی ہںت اس سے مرثیے اور سلام کی صِنف بھی متاثر ہوئی۔ اگر آپ میر انیسؔ کے بعد کا زمانہ لںب تو جدید مرثیے اور سلام کا تصور جوش ؔ صاحب سے قائم ہُوا۔ برِّ صغیر کی جنگِ آزادی لڑی جا رہی تھی اور جوشؔ صاحب نے کربلا کو اُس آزادی کے رشتے سے ہم آہنگ کر کے جو مرثیے اور سلام لکھے۔ ۔وہاں سے جدید مرثیے اور سلام کا تصوّر قائم ہُو۔ اُس سے بہت پہلے ہم اقبالؔ کی شاعری کی طرف متوجّہ ہوتے ہںا تو ‘ رموزِ بے خودی’ سے سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ ۱۹۱۸ مںک ‘ رموزِ بے خودی’ شائع ہوئی ہے۔ سلیم چِشتی نے ‘رموزِ بے خودی’ کی شرح لکھی ہے، انہوں نے لکھا ہے کہ، مںر نے علاّمہ اقبال سے پوچھا کہ آپ فرماتے ہیں
؎