50%

احساسات کی دوہری معنویت کا حسینی شاعر

محمد شفیع بلوچ (جھنگ)

کربلا کے واقعات تاریخِ انسانیت کا وہ عظیم المیہ ہںو جن مںن ایک طرف جورو جفا کی انتہا ہے تو دوسری طرف حسینیت کے روپ مںل استقامت، عزم، قوتِ عمل، معیارِ قربانی، صبر و قناعت، استغنا و توکل، صفائے قلب، سخاوت، شجاعت، راست بازی اور ثباتِ قدم کی انتہا ہے۔ کرب و بلا مںع حسینؓ کے خون سے توحید کی اک نئی تفسیر لکھی گئی۔ اپنی اثر آفرینی کے لحاظ سے کربلا کے واقعات شروع دن سے ہی تازگی لئے ہوئے ہں ۔ بیدار دُنیا کا شاید ہی کوئی گوشہ ایسا ہو جہاں حق و باطل کے معرکے مںس حسینؓ کا نام بطور سچائی اور حق کی علامت کے طور پر نہ پہنچا ہو۔ دنیائے ادب مںش تو حسینؓ اور حسینیت کا شمار نہ صرف مذہبی معتقدات مںہ ہوتا ہے بلکہ تخلیق کاروں کا ہر دو سے ایک اعلیٰ سطح کا مستحکم جذباتی تعلق بھی قائم ہے۔ اس جذباتی تعلق نے پہلے اعتقادی صورت اختیار کی اور بعد مںا رثا اور نوحہ کی یہی کیفیت ارتقائی منزلیں طے کرتی ہوئی سلام کی صنف مںف ڈھل گئی جو بالآخر شہدائے کربلا اور بالخصوص حضرت امام حسینؓ کی ذاتِ والا صفات کے رثا اور مناقب کے بیان کے لئے وقف ہو گئی۔

سلام کی روایت عربی اور فارسی سے کہںا بڑھ کر اُردو مںا پروان چڑھی۔ مذہب و عقیدت سے گہری وابستگی کے باعث اس صنفِ سخن کو اردو مںی قابلِ اعتنا نہںک سمجھا گیا اور یہ عجب یوں نہںت کہ مذہبی ادب کے ساتھ شروع سے ہی ایسا سلوک ہوتا آیا ہے، حالانکہ مذہب ایسا لطیف اور پاکیزہ احساس ہے کہ جس کے ساتھ آدمی کا جذباتی رشتہ ہوتا ہے اور مذہب کے خلاف کوئی بھی بات آدمی کو نہ صرف ناگوار گزرتی ہے بلکہ وہ مرنے مارنے پر بھی اُتر آتا ہے کیا سچی مذہبی عقیدت تنگ نظری مںص شمار کی جا سکتی ہے؟ میرے خیال مںر اس لئے نہںر کہ معتقدات اور محسوسات افراد اور معاشرے دونوں سطحوں پر پائے جاتے ہں اور کسی بھی مہذب معاشرے مں ان کا شمار اعلیٰ اقدار مںو ہوتا ہے۔