11%

بھلائیوں کا حکم کرتا ہوں اور برائیوں سے روکنے کا پرچار کرتا ہوں ۔

عثمان:- (یہ سن کر آگ بگولہ ہوجاتے ہیں )اے اہل دربار مجھے مشورہ دو کہ میں اس بڈھے جھوٹے کے ساتھ کیا سلوک کروں ۔اس کو کوڑے لگاؤں یا قید کردوں یا اس کا کام تمام کردوں یا پھر وطن بدر کردوں ۔(اس پر جماعت مسلمین میں اختلاف واشتغال رونما ہوا ۔یہ سنکر حضرت علی علیہ السلام جو اس وقت موجود تھے بولے )

حضرت علی علیہ السلام :-اے عثمان! میں تمھیں مومن آل فرعون کی طرح یہ رائے دیتا ہوں تم ابوذر کو اس کے اپنے حال پر چھوڑ دو۔ اگر یہ (معاذاللہ) جھوٹا ہے تو جھوٹ کا نتیجہ خود پائے گا اور اگر یہ سچا ہے تو اس کا بار تمھاری گردن پر ہوگا ۔خدا اس کی ہدایت نہیں کرتا جو اسراف کرے اور جھوٹا ہو۔

(صاحب طبقات لکھتے ہیں کہ یہ سنکر خلیفہ عثمان اور حضرت علی میں گرما گرمی ہوئی اور بحث میں تلخی وشدت پیدا ہوئی جس کاذکر میں نہیں کرنا چاہتا ۔)

اللہ فقیر ،عثمان غنی :-

بہر حال حضرت علی علیہ السلام کی کوششوں سے حضرت ابوذر (رض) دربار عثمان سے باہر آئے اقتدا کے نشہ میں حاکم کی مدہوشی کا یہ عالم تھا کہ اس کو رسول صادق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ قول مبنی بر صدق بھی یاد نہ رہا تھا کہ حضور نے جناب ابوذر (رض) کے لئے ضمانت دی تھی کہ "نیلے آسمان کے نیچے اور روئے زمین کے اوپر ابوذر سے زیادہ سچا کوئی نہیں پیدا ہوگا ۔مگر ابوذر نے بھی مقام غدیر پر مے ولایت کے خم کے خم نوش کر رکھے تھے جس کی مستی کم ہی نہ ہوتی ہے ۔