لوگوں میں اختلاف اور فساد پیدا ہوجائے گا ۔ راوی کا بیان ہے کہ حضرت مقداد رضی اللہ عنہ اس مجلس سے اٹھے تو میں ان کے پاس گیا اور کہا اے مقداد میں تمھارے مددگار وں میں سے ہوں ۔ مقداد نے جواب دیا کہ خدا تم پر رحمت نازل کرے ۔جس امر کا میں ارادہ رکھتا ہوں وہ دویا تین شخصوں سے پورا نہ ہوگا اس کے بعد راوی حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کی اور اپنی گفتگو بیان کی ۔جسے سنکر مولائے عالمین نے ان کے لئے دعائے خیر کی ۔
اس روایت سے وہ وجوہات ازخود منکشف ہوجاتی ہیں جو حضرت مقداد اور حکومت کے درمیان باعث کشمکش رہیں ۔
الف قران :-
حضرت صادق آل محمد علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ "مقداد بن اسود کا مرتبہ قرآن مین الف کے مرتبہ کے مانند ہے کہ دوسرا حرف اس سے نہیں ملتا ۔اسی طرح کمال میں کوئی دوسرا مقداد کے کمال سے ملحق نہیں ہوتا ۔
خصوصی امتیاز:-
حلقہ اصحاب النبی میں حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کو یہ خصوصی امتیاز حاصل ہے کہ شیخ کشی نے بسند معتبر روایت کی ہے کہ صحابہ میں کوئی ایسا صاحب نہ تھا جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی حرکت نامناسب نہ کی ہو سوائے مقداد بن اسود کے کیوں کہ ان کادل حق کی طرفداری میں مثل آہنی ٹکڑوں کے تھا ۔پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ یار باوقار