فوقیت کیوں دی جانے لگی ہے ۔ اس بات کا سبب کیا تھا کہ زمانہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم میں ان اصحاب باوفا کو جو مقامات عالیہ نصیب تھے بعد میں ان کی قدر نہ کی گئی ۔ امت حمیدہ کے ان درخشیدہ ستاروں کی روشنی کے مدھم پڑجانے کا باعث کیا ہوا ۔ اور کیوں بے جرم وخطا ان یاران رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم سے بے اعتنائی کا سلوک کیا گیا چونکہ اس قسم کے سوالات خصوصی اہمیت رکھتے ہیں اس لئے ان پر حسب استطا عت گفتگو کرنا ضروری سمجھتے ہیں ۔
مقدمہ:-
اگر ہم تاریخ عالم کا مطالعہ باریک بینی سے کریں تو یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ تمام عظیم الشان مدبّر ین سلطنت کی سیاست کے دو مشترکہ اصول اساسی تھے ۔ جو ان کامیابی کے راز تھے پہلا یہ کہ " اپنے مقاصد کے حصول کی خا طر ہر ایک امر ما سوا کی طرف سے مطلقا بے تو جہی اختیار کرکے اس کو قطعا نظر انداز کردینا ۔"
مذہب اور محبت دوبڑی طاقتیں ہیں لیکن ان فرماں رواؤں نے ان طاقتوں کو بھی مفلوج بنا کر اپنا سکہ جمایا ۔ دوسرا کہ " اپنے ارادہ اور دلی راز کو اس طرح خفیہ رکھنا ، کہ عوام الناس کو اس کی بھنک بھی نہ لگ ۔اگر ایمانداررانہ رائے قائم کی جائے تو میرے خیال میں کمال سلطنت اسلامیہ کے پہلے بادشاہوں ہوں خصوصا حضرت عمر بن خطاب کو اس ہنر میں حاصل ہو ا دنیا کے کسی بھی حکمران کو نصیب نہ ہو سکا ۔حتی کہ آج کے مغربی سیاستدان بھی اس درجہ کو نہیں پہنچ سکتے ۔ جب ہم فاروق اعظم اہل سنتہ کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ساری عمر اس مقصد کے حاصل کرنے میں گزاردی ۔مرتے مرگئے مگر سوائے چند مقرب افراد کے انھوں نے عوام الناس پر اپنا مقصد ظاہر نہ ہونے دیا ۔ یہ بلا شبہ دینون سیاست اور طرز جہاں بانی کا آخری درجہ کمال ہے حضرت عمر کو جن لوگوں سے سیاسی اختلاف