تھا کہ لوگ غلط سلط حدیثیں شائع نہ کریں نیز یہ ظاہر نہیں ہوتا ہے کہ انھوں نے صرف فضائل اہل بیت(ع) اور شیعیان اہلبیت کی جو خبیرں تھیں ان کو بیان کرنے سے روکا اور پھر حضرت عمر کا گذشتہ امتوں کے حالات سے عبرت آموز نتیجہ نکالنا ہر طرح معقول ہے لہذا بہتر ہے کہ ان اعتراض پر بھی مختصرا گفتگو کرلی جائے ۔ چنانچہ وکلاء عمر نے کہا ہے کہ
خوف غلطی:-
حضرت عمر نے احادیث کی اشاعت کو اس لئے روکا کہ خوف تھا کہ لوگ جھوٹی احادیث نہ مشہور کردیں جبکہ ہم اس عذر کے تحت حضرت عمر کو طرز عمل دیکھتے ہیں تو یہ خدشہ ان کے ذہن کی سوچ اور عمل و کردار کے مطابق قرار نہیں پاتا ہے میں سب سے پہلے تو یہ کہتا ہوں کہ سارے صحابی عادل تھے تو پھر حضرت عمر نے ثقایت اصحاب پر عدم اعتماد کرتے ہوئے ایسا کیوں سوچ لیا ۔ یا حضرت عمر کی نظر میں حلقہ اصحاب میں بعض لوگ نا قابل اعتبار تھے یا پھر حدیث نجوم کو بعد میں وضع کیا گیا ہے ۔ بہر صورت یہ بات غور طلب ہے کہ اگر محض غلطی کا خوف تھا تو اس کا علاج بڑی آسانی سے کیا جاسکتا تھا کیونکہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم کی وفات کو زیادہ عرصہ نہیں بیتا تھا ۔تمام صحابہ موجود تھے جنھوں نے خود اپنے کانوں سے ارشاد ات رسول سنے تھے اور اپنے ذہن میں محفوظ کرلئے تھے حضرت عمر کسی بھی مقتدر صحابی کی سربراہی میں ایک مخصوص جماعت صحابہ کے سپرد یہ کام کردیتے جو صحیح احادیث رسول جمع کرنے کی ذمہ داری ہو تی ۔جو کام انتقال رسول کے ڈیڑھ سو سال بعد شروع ہوا اسی وقت شروع ہو جاتا اور آیندہ کے تمام جھگڑے وہیں پر ختم ہو جاتے ۔