آخر قرآن شریف بھی تو لوگوں کے سینوں ہی سے نکال کر جمع کیا گیا تھا ۔ اسی وجہ سے تدوین حدیث کا کام بھی بڑی عمدگی سے ہو سکتا تھا جبکہ تمام امت کا اجماع بھی اس بات پر تھا جیسا کہ آپ نے اوپر والے بیان میں ملاحظہ فرمایا ہے کہ اصحاب احادیث رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم کو جمع کرنے کے حق میں تھے مگر حضرت عمر کی رائے اس کے خلاف ہوئی خود اس مسئلہ میں حضرت عمر نے اجماع امت کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے ایک مہینے کے استخاروں پر عمل کیا ۔ اور نہایت ضروری امر شریعت میں اپنی اکیلی رائے کو مسلط کرکے جمہوریت کے تابوت میں کیل ٹھونک دی ۔
ترک حدیث اخفائے فضائل مخالفین کے لئے نہ تھا :-
کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر کا یہ طرز عمل اہل بیت اور ان کے متبعین کے فضائل و مناقب کو چھپانے کے لئے نہ تھا بلکہ ہر طرح کے حدیثوں سے ان کا برتاؤ یکسان تھا ۔
لیکن جب ہم تاریخ پر نظر دوڑاتے ہیں تو یہ قیاس بے بنیاد ثابت ہو تا ہے کیونکہ حضرت عمر دیگر احادیث کی تلاش میں سرگرداں رہتے تھے بلکہ مقدمات کا فیصلہ کرتے وقت اگر قرآن شریف میں کسی تنازعہ کا جواب نہ پاتے تھے تو لوگوں سے احادیث رسول پوچھا کرتے تھے جب حضرت عمر کا آخری وقت قریب ہوا تو آب کو اپنا جانشین مقرر کرنے کا خیال ہو ا ۔ معاذ بن جبل ، خالد بن ولید ،ابو عبیدہ بن جراح اور سالم غلام کے فضائل حضور کی احادیث سے مستبنظ کرتے تھے کہ فلان کو "امین امت" فلاں کو سیف اللہ اور فلاں کو عالم آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم نے کہا تھا ۔حضرت علی علیہ السلام کے ومتعلق جو