حالت میں دوبارہ مسجد کی طرف پلٹے ۔اور پھر وہی کلمات حق بآواز بلند دہرائے اب کی بار قریش آگ بگولہ ہوگئے اور انھوں نے شور مچایا کہ اس شخص کو قتل کردو ۔آپ پر ہر طرف سے حملہ کردیا گیا اور اس بے دردی سے مارا کہ قریب المرگ ہوگئے اس مرتبہ پھر عباس بن عبد المطلب نے آپ کی جان بچائی ۔حضرت ابوذر کی ان جراءت مندانہ تقریر نے قریش کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ اسلام کی روشن کرنیں اب صفحہ ہستی پر پھیلنا شروع ہوگئی ہیں اور وہ دن دور نہیں کہ پتھر کے خداؤں کی شان وشوکت خاک میں مل جائے گی ۔
اب پھر حضرت ابوذر نے آب زم زم سے اپنا جسم پاک کیا اور خدمت رسول میں حاضر ہوئے چنانچہ حضور نے آپ کی حالت زار ملاحظہ فرما کر حکم دیا کہ " اے ابوذر اب تمھمیں میر ایہ امر ہے کہ تم فورا اپنے وطن واپس چلے جاؤ تمھارے پہنچنے سے پہلے تمہارا ماموں فوت ہوچکا ہوگا چونکہ تمھارے سوا اس کا اور کوئی وارث نہیں ہے لہذا اس کی جائیداد کے بھی تم مالک و وارث ہوگئے تم جاؤ اور مال حاصل کرنے بعد اسے تبلیغ اسلام پر صرف کرو ۔میں عنقریب یثرب کی طرف ہجرت کرکے چلا جاؤں گا ۔تم اس وقت تک وہیں اپنا کام کرنا جب تک میں ہجرت نہ کرلوں ۔حضرت ابوذر نے سرتسلیم جھکا کر عرض کیا کہ حضور میں عنقریب یہاں سے چلا جاؤں گا اور اسلام کی تبلیغ کرتا رہوں گا ۔
ابوذر کی تبلیغی خدمات:-
ایمان سے مالا مال ہوکر یہ یار پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم اپنے وطن واپس آگیا ۔دنیوی دولت نے بھی قدم چومے اور ترویج اسلام میں پوری سعی سعید شروع کردی ۔ سب سے پہلے اپنے بھائی انیس کو حلقہ