ہیں جن میں صاف تصریح ہے کہ رسول مہمل وبے ہودہ بات کہنے سے پاک و منزہ ہیں ۔ علاوہ ازاین خود تنہا عقل سلیم بھی رسول سے مہمل اور بے ہودہ باتوں کا صادر ہونا محال سمجھتی ہے ۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ صحابہ اچھی طرح جانتے تھے کہ حضرت رسول (ص)حضرت علی (ع) کے لئے خلافت کی بات کو مزید پکا کردینا چاہتے ہیں اور آج تک آپ نے حضرت علی (ع)کے جانشینی اور خلافت کے جتنے اعلانات کئے تھے انہیں تحریری صورت دینا چاہتے تھے اسی لئے حضرت عمر اور ان کے حامی افراد نے رسول خدا (ص) کی بات کو کاٹ دیا تھا ۔ یہ صرف ہمارا پیدا کردہ تخیل نہیں ہے بلکہ یہ وہ حقیقت ہے جس کا اعتراف حضرت عمر نے عبد اللہ بن عباس کے سامنے کیا تھا(۱) ۔
اگر آپ رسول خدا(ص)کے اس قول "میرے پاس کاغذ اور قلم دوات لاؤ تاکہ میں ایسا نوشتہ لکھ جاؤں کہ اس کے بعد تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے "۔
اور حدیث ثقلین کے اس فقرہ پر کہ :-
"میں تم میں دو گراں چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں اگر تم ان سے وابستہ رہے تو میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے : ایک اللہ کی کتاب ہے اور دوسری میری عترت " توجہ فرمائیں گے تو آپ پر یہ حقیقت منکشف ہوگی کہ دونوں حدیثوں سے رسول خدا کا مقصود ایک ہی تھا ۔
پیغمبر نے زبر دستی نوشتہ کیوں نہ لکھا ؟:-
رسول خدا (ص) نے حالت مرض میں کاغذ اور قلم دوات اس لئے طلب کیا تھا کہ حدیث ثقلین کے مفہوم کو تحریری صورت لکھ کردے دیا جائے ۔
____________________
(۱):-ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغہ جلد سوم ص ۱۴۰ طبع مصر