تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔
یقینا حضرت عثمان کو ایسا کرنے کا کوئی قانونی اور شرعی اختیار حاصل نہ تھا ۔ حضرت ابو ذر کی مثال کو ہی لے لیں ۔ ان کا جرم صرف یہی تھا کہ انہوں نے ان کی مالیاتی پالیسی بالخصوص اقرباء پروری یعنی بنی امیہ نوازی کو ہدف تنقید بنایا تو انہیں اس کی پاداش میں مدینہ سے نکال دیاگیا ۔
حضرت عثمان نے صرف اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ اپنے حکام و عمال کو کھلی چھٹی دے دی کہ وہ جس کو چاہیں جلاوطن کریں اس کی اجازت کے ملنے کے بعد ان کے عمال کبھی اپنے مخالفین کو کوفہ سے شام جلاوطن کرنے لگے اور کبھی شام سے بصرہ اور کبھی بصرہ سے مصر جلاوطن کرتے تھے ۔ گویا جلاوطن کرکے معاویہ کے پاس بھیجتا تھا ۔ اور معاویہ لوگوں کو جلاوطن کرکے سعید کے پاس بھیجتا اور سعید عبدالرحمن بن خالد کی طرف جلاوطن کردیتا تھا ۔ مظلوم لوگوں کی فریاد سننے والا کوئی نہ تھا اور نہ ہی انہیں کسی عدالت میں پیش کیا جاتا تھا اور ان کو کسی قسم کی صفائی کا موقع بھی فراہم نہیں کیا جاتا تھا(۱) ۔
عبداللہ بن مسعود کی داستان مظلومیت
حضرت عبداللہ بن مسعود کی داستان مظلومیت خاصی عبرت انگیز ہے ۔ان کے مصائب کی ابتداء اس وقت ہوئی جب حضرت عثمان کا مادری بھائی ولید بن عقبہ کوفہ کا گورنر بن کے آیا ۔ جناب عبداللہ بن مسعود اس وقت کوفہ کے بیت المال کے خازن تھے ۔
ولید نے ان سے ایک بڑی رقم بطور قرض مانگی انہوں نے دے دی ۔چند دنوں کے بعد ولید نے ایک اور بھاری رقم نکالنے کا حکم دیا ۔ تو انہوں نے انکار
____________________
(۱):- ڈاکٹر طہ حسین مصری ۔ الفتنتہ الکبری ۔عثمان بن عفان ۔ص ۱۹۸-۱۹۹