مظالم ڈھائے گئے ہیں ۔ اس کے اصل مجرم تم ہو۔
عبدالرحمن نے کہا:- اگر آپ چاہیں تو میں اپنی تلوار اٹھا لیتا ہوں اور آپ اپنی تلوار اٹھالیں ۔دونوں مل کر اس سے جنگ کریں ۔اس نے میرے ساتھ کئے ہوئے وعدوں کا لحاظ نہیں رکھا ۔
عبدالرحمن یہ وصیت کرکے مرے تھے کہ :- ان کے جنازے میں عثمان شریک نہ ہوں ۔
عمرو بن العاص اور حضرت عثمان
حضرت عثمان نے عمر بن العاص کو مصر کی گورنری سے معزول کردیا ۔
اس لئے عمرو بن العاص بھی ان کا مخالف بن گیا اور اس نے لوگوں کو خلیفہ کے خلاف بھڑکانا شروع کیا اور ایک مرتبہ حضرت عثمان کے سامنے اس نے جراءت کرکے کہا تھا کہ :- تم نے لوگوں پر ظلم کئے اور ہم بھی ان مظالم میں تمہارے شریک تھے لہذا تم بھی توبہ کرو اور ہم بھی تیرے ساتھ توبہ کریں گے ۔
جب عمرو بن العاص نے دیکھا کہ اب حالات حضرت عثمان کے کنٹرول میں نہیں رہے اور ان کا منطقی نتیجہ ظاہر ہونے ہی والا ہے تو وہ فلسطین میں اپنی جاگیر پر چلا گیا اور مدینہ کی خبروں کا انتظار کرنے بیٹھ گیا ۔
فلسطین کی جاگیر میں عمر بن العاص اپنے دونوں بیٹوں کے ہمراہ رہائش پزیر تھا کہ اسے حضرت عثمان کے قتل کی خبر ملی تو اس نے اپنے بیٹے عبداللہ کو مخاطب کرکے کہا :- عبداللہ ! میں تیرا باپ ہوں ۔میں نے آج تک جس زخم کو کریدا تو اس سے خون ضرور نکالا ۔
اسے جملے سے وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ میں نے عثمان کے قتل کی راہ ہموار کی