بسمہ تعالیٰ
حرف مترجم
بحمد اللہ، عالمی شہرت کے مالک، محقق یگانہ، روشن فکر و بے باک مناظر اور صاحبِ قلم، سابق اہل سنت والجماعت علامہ محمد تیجانی سماوی کی چوتھی گرانقدر کتاب " الشیعہ ھم اہل السنت" کے ترجمہ کا شرف بھی ناچیز ہی کو حاصل ہوا۔ یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا کہ" فاسئلوا اهل الذکر" کے بعد فاضل نبیل کہ کوئی نئی کتاب بھی آئے گی۔ اور اس کے ترجمہ کا شرف مجھ ہی ناچیز کو حاصل ہوگا۔ کیونکہ مؤلف نے" اهل الذکر " میں بظاہر تمام چیزیں سمودی تھیں لیکن چوتھی کتاب سے یہ معلوم ہوا کہ کسی بھی چیز کو حرفِ آخر نہیں قرار دیا جاسکتا۔ میں بھی اچانک بننے والے پروگرام کے تحت وطن چلا گیا تھا اور لوٹنے کی کوئی امید بھی نہیں تھی۔ مایوسی کفر ہے۔ لیکن بازگشت کے متعلق میری آس بالکل ٹوٹ چکی تھی۔ حوزہ علمیہ قم المقدسہ کے صبح و شام، یہاں کی پاک و پاکیزہ فضا، روحانیت کا پر کیف منظر۔ خاندان عصمت و طہارت کی ایک کڑی حضرت معصومہ ع کا روضہ صحنِ حرم میں تسبیح و تہلیل کے ساتھ مؤمنین و طلباء کا مخلصانہ مصافحہ، علمی مباحثے یہ تمام چیزیں یاد ماضی بن کر ذہن میں گردش کرتی رہتی تھیں اور ہمہ وقت امام مشرق علامہ اقبال کا یہ شعر ورد زبان رہتا تھا۔
ہاں دکھادے اے تصوٰر پھر وہ صبح و شام تو
لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
غیبی تائید شامل حال ہوئی اور میں یک بیک قم کی مقدس و مبارک سرزمین پر پہنچ گیا۔ آئے ہوئے چند ہی روز گزرے تھے کہ محترم انصاریان کا پیغام ملا: جتنی جلد ہوسکے مجھ سے مل لیں ، کیونکہ موصوف صاحبِ فراش تھے۔ لہذا میں عیادت کے فریضہ اور ان کی مذہبی خدمات و اخلاقی اقدار کے تحت ان کے پاس گیا۔ موصوف کا آپریشن ہوچکا تھا۔ اُٹھ کر بیٹھ نہیں