سیاسی میدان سے علیحیدگی
ہم بیان کرچکے ہیں کہ بائیکاٹ اور اقتصاد کو توڑ دینے اور غصب کرلینے کے بعد علی (ع) کو اسلامی معاشرہ سے بھی علیحیدہ کردیا تھا۔ جس کی وجہ سے لوگوں نے علی(ع) سے منہ پھیر لیا تھا۔لیکن برسرِ اقتدار پارٹی نے اسی پر اکتفا نہ کی بلکہ انھیں سیاسی میدان سے بھی الگ کردیا اور انھیں حکومت کے کسی بھی امر سے دور رکھا حکومت کو کوئی منصب و ذمّہ داری اس کے سپرد نہ کی اگر چہ انھوں نے بنی امیہ کے ان طلقا و فساق میں حکومت کے منصب تقسیم کردیتے تھے جو کہ رسول (ص) کی حیات میں اسلام سے برسرپیکار تھے۔چنانچہ علی(ع) پچیس سال ابوبکر ، عمر، عثمان کے زمانہ خلافت تک سیاسی میدان اور حکومت کے منصب و امور سے علیحدہ رکھے گئے۔ جب کہ اسی زمانہ میں بعض صحابہ نے اموال جمع کر کے دریچے بھر لئے تھے اور چاندی ، سونے کا ذخیرہ کرلیا تھا۔اور علی(ع) یہودیوں کے باغوں کی سینچائی کرتے اور محنت شاقہ سے اپنا پسینہ بہا کر روزی کماتے تھے۔باب العلم ، حبرالامامت اور علم بردار سنتِ نبی(ص) ایسے ہی اپنے گھر بیٹھے رہے اور کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ ہاں انگشت شمار وہ صحابہ ضرور قدر کرتے تھے جو کہ آپ کے شیعہ تھے لیکن نادار تھے۔ اور جب حضرت علی(ع) نے اپنی خلافت کے زمانہ میں لوگوں کو قرآن و سنت کی طرف پلٹانا چاہا تو عمر ابن خطاب کے اجتہاد کے حامی چیخ پڑے ۔ ہائے سنتِ عمر!
ان تمام باتوں سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ سنتِ نبی(ص) سے صرف علی(ع) اور شیعہ ہی متمسک تھے اور وہی اس پر عمل پیرا تھے۔ وہ کبھی سنت سے دستبردار نہیں ہوئے جبکہ باقی لوگوں سے ابوبکر،عمر، عثمان اور عائشہ کو اختیار کرلیا تھا اور ان کی بدعت کو بدعت حسنہ کا نام دیتے تھے۔(صحیح بخاری، جلد۲، ص254، باب صلواۃ التراویح القباج، ص98)