امام احمد بن حنبل کو اس بات پر کوڑے لگوائے گئے تھے کہ وہ قرآن کو قدیم مانتے تھے، لوگ اپنے بادشاہ کے دین پر چل رہے تھے اور قرآن کو مخلوق کہہ رہے تھے۔ چنانچہ احمد بن حنبل نے خوف کے مارے قرآن کو مخلوق کہہ کرجان بچائی لیکن متوکل کے زمانے میں حنبل کا ستارہ چمکا اور اسی زمانہ میں حضرت علی(ع) کو خلفا ثلاثہ سے ملحق کیا گیا۔ ( اہل حدیث یعنی اہلِ سنت)
شاید احمد بن حنبل کو ان احادیث نے حیرت میں ڈالدیا تھا جو حضرت علی بن ابی طالب(ع) کے بارے میں وارد ہوئی تھیں ۔احمد بن حنبل کہتے ہیں ، جتنی احادیث علی ابن ابی طالب(ع) کے فضائل کے سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں اتنی کسی اور کے متعلق وارد نہیں ہوئی ہیں۔
طبقات حنابلہ ۔جو کہ ان کی معتبر ترین کتاب ہے اس میں ابن ابی یعلی اور دیزہ الحمصی کے اسناد سے مرقوم ہے کہ اس نے کہا :
میں اس وقت احمد بن حنبل کے پاس گیا۔ جب وہ علی(ع) کو چوتھا خلیفہ تسلیم کرچکا تھا( اس محدث کو ملاحظہ فرمائیے جو کہ علی(ع) پر سب و شتم نہیں کرتا ہے اور نہ یہ لعنت کرتا ہے بلکہ رضی اللہ عنہ کہتا ہے۔ لیکن اس بات پر راضی نہیں ہے کہ علی(ع) خلفا میں شمار کئے جائیں اسی لئے احمد بن حنبل سے بحث کرتا ہے اور اس کا جمع کا صیغہ استعمال کرنے معلوم ہوتا ہے کہ اسے اہل سنت کی جماعت نے احمد بن حنبل کے پاس بھیجا تھا۔) میں نے ان سے کہا اے ابو عبداللہ یہ طلحہ و زبیر پر لعن طعن ہے انھوں نے کہا تم نے بہت بری با ت کہی ہے، کیا ہم اس قوم کے جھگڑوں اور قصوں ہی میں پڑے رہیں؟ میں نے کہا! خدا آپ کی اصلاح کرے میں نے یہ بات اس لئے کہی ہے کہ آپ نے علی(ع) کو چوتھا خلیفہ قرار دیا ہے اور ان کی خلافت کو واجب جانا ہے جبکہ ائمہ نے ان کی خلافت کو واجب نہیں جانا ہے۔