7%

گناہ کے بارے میں فکر کرنے کا اثر

انسان میں ہر اچہی و بری ، نیک و بد صفت کے خلق ہونے کی آمادگی مو جود ہوتی ہے ۔ اچہے اور برے کے بارے میں سو چ و فکر سے ان کی فعلیت و انجام دہی میں تبدیلی آ جاتی ہے ۔ پہر یہ امکان کے مرحلہ سے نکل کر واقعیت کا جامہ پہن لیتی ہے ۔ یہ ایک عام اور کلی حقیقت ہے کہ جو صرف اچہے اور پسندیدہ کاموں کے ساتہ مختص نہیں ہے ، یعنی جس طرح انسان اچہائیوں کے بارے میں سوچنے سے ان ہی کی طرف مائل ہو تا ہے ۔ اور انہیں انجام دیتا ہے اسی طرح حیوانی لذتوں اورگناہوں کے بارے میں سوچنا بہی انسان کو ان ہی کی طرف لے جاتا ہے اور پہر انسان ان کا مرتکب ہو تا ہے ۔

حضرت امیر المومنین  (ع) فرماتے ہیں :''من کثر فکره فی المعاصی ، دعته الیها ''(1) جو کوئی گناہوں کے بارے میں زیادہ فکر کر ے تو وہ ان کی طرف آجاتا ہے ۔اسی طرح دوسرے فرمان میں ارشاد ہے : ''من کثر فی اللذات ، غلبت علیه ''(2)

جو کو ئی لذتوں کے بارے میں زیادہ سوچے تو یہ اس پر غالب آجاتی ہیں ۔اس بناء پر انسان کی سوچ و فکر اس کےمستقبل کو تبدیل کرسکتی ہے اور اس کی زندگی میں عظیم تبدیلیاں اور تحو لات ایجاد کر سکتی ہے اسی وجہ سے خاندان عصمت و طہارت کے دلنشین کلمات وفرمودات میں تفکر و تعقل کی  اہمیت کو بیان فرما یا گیاہے اور انہوں نے اپنے محبوں اور پیرو کاروں کو اس کی اہمیت کے با رے میں امر فر مایا ہے۔ کیو نکہ اچہا عمل و کردار ، اہم اور باارزش مو ضوعات میں فکر اور سوچ و بیچار کا نتیجہ ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ شرح غرر الحکم:ج5 ص 321

[2] ۔ شرح غرر الحکم:522