چھپایا حسن کو اپنے کلیم اللہ سے جس نے
وہی ناز آفریں ہے جلوہ پیرا نازنینوں میں
*
جلا سکتی ہے شمع کشتہ کو موج نفس ان کی
الہی! کیا چھپا ہوتا ہے اہل دل کے سینوں میں
*
تمنا درد دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی
نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں
*
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ، ارادت ہو تو دیکھ ان کو
ید بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
*
ترستی ہے نگاہ نا رسا جس کے نظارے کو
وہ رونق انجمن کی ہے انھی خلوت گزینوں میں
*
کسی ایسے شرر سے پھونک اپنے خرمن دل کو
کہ خورشید قیامت بھی ہو تیرے خوشہ چینوں میں
*