اگرچہ ممکن ہے کہ سائل مقربین آل محمد اور شیعوں کی توفیقات کو بہت بڑی حاجت سمجہے اور اپنے آپ کو اس عظیم نعمت کے سامنے پست اور نا اہل سمجہے ، لیکن چونکہ وہ خدا بزرگ و برتر کے حضور میں ہے اور خالق کائنات کی بارگاہ میں سوال کررہا ہے،لہٰذا وہ بہترین اور پر ثمر ترین حاجات طلب کرے ۔ کیونکہ خدا کے حضور اور خدا کی بارگاہ میں خدا کی عظمت و بزرگی کو مدّ نظر رکہیں نہ کہ فقط اپنی پستی و ذلت کو ملاحظہ کریں۔
بعض لوگ معتقد ہیں کہ انسان خدا وند متعال سے اپنی حد اور اوقات سے زیادہ طلب نہ کرے ، لہٰذا اپنی حیثیت و صلاحیت اور حدود کو مد نظر رکھ کر اپنے ہدف تک پہنچنے کی دعا کریں۔اگر فرض کریں کہ یہ عقیدہ صحیح بھی ہو تو یہ کلیّت نہیں رکھتا۔کیونکہ بعض مقامات پر اور بعض اوقات انسان خدا کے نزدیک اس قدر عظیم و عالی مقام رکھتا ہے کہ انسان خدا سے ہر قسم کی عظیم حاجت طلب کرسکتا ہے۔حضرت امیرالمؤمنین (ع) کی زیارت وداع میں پڑھتے ہیں:''اَلَّلهمَّ وَفّقنا لکلّ مَقامٍ مَحمودٍوَ اَقلبنی من هذا الحَرَم بکلّ خَیرٍ مَوجودٍ'' (1)
پروردگارا، مجہے ہر قسم کے مقام محمود کے حصول کی توفیق عطا فرما اور مجہے اس حرم سے ہر موجود خیر کے ساتہ لوٹا۔
خدا کے نزدیک حضرت امیرالمؤمنین کے حرم مطہر کی شرافت و محبوبیت کی وجہ سے زائر کو اجازت ہے کہ وہ خدا سے ہر قسم کی توفیق اور مقام محمود کو طلب کرسکتا ہے۔
اسی بناء پر اگرچہ سائل بعض مقامات کو طلب کرنے کی لیاقت و صلاحیت نہ رکہتا ہو لیکن زمان ومکان کی عظمت کی وجہ سے ایسی بزرگ حاجات کو طلب کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]۔ بحارالانوار:ج۱۰۰ص۳۸۲