ہمارے افکار اس صورت میں اثر رکہتے ہیں کہ جب ان کے ساتہ یقین کی صفت بہی ہو جو عالی معنوی مقامات کی جستجو اور معارف الٰہی کی تلاش میں ہوں وہ اپنے اندر یقین پیدا کرنے کے اسباب ایجاد کریں ۔
جو عالم غیب کے ساتہ ارتباط رکہتے ہوں وہ اپنے میں یقین کی قوت ایجاد کر تے ہیں اور اسے تقویت دینے کی کو شش کر تے ہیں ۔ کیو نکہ یقین عالم معنی تک پہنچنے اور معنوی مقامات کے حصول کی بنیاد ی شرط ہے ۔ یقین پیدا کرنے سے آپ اپنے زنگ آلود دل کو نئی زندگی دے کر روحانی امراض اور فکری آلودگیوں کوختم کریں اس صورت میں آپ کے باطن کی بہی اصلاح ہو جائے گی اور خدا کے نزدیک آپ کے اعمال کی اہمیت میں بہی اضافہ ہو گا ۔
کسب معارف ، اصلاح نفس اور بزرگان دین و اولیاء خدا کی صحبت یقین ایجاد کر نے کے بہترین ذرائع ہیں ۔ یقین کی حفاظت کی اساسی شرط گناہوں کو ترک کرنا ہے ۔ کیو نکہ گناہ و معصیت کئی سالوں کی کوششوں سے حاصل ہونے والے یقین کو نابود کر دیتا ہے ۔
گر عزم تو محکم و متین آمدہ است
در پر تو انوار یقین آمدہ است
تا نور یقین بہ دل نتا بید ، کجا ؟
سر پنجۂ عزم ، از آستین آمدہ است
تمہارا عزم و ارادہ پختہ اور مضبوط ہو لیکن ارادے کی پختگی یقین کے ہمراہ ہو ۔جب تک دل یقین کے نور سے منور نہ ہو تب تک پختہ عزم وارادہ حاصل نہیں ہو سکتا ۔