آپ نے فرمایا:انسان کے دو دل نہیں ہیں کہ جو ایک سے محبت کرے اور دوسرے سے دشمنی۔ ہمارے محب ہمارے خاندان کی محبت کو ہمارے دشمنوں کی محبت سے پاک کرتے ہیں۔جس طرح آگ سونے کو خالص کر دیتی ہے کہ اس میں کوئی ملاوٹ نہ ہو۔
جو کوئی بھی یہ جاننا چاہتا ہو کہ وہ ہمارے خاندان سے محبت کرتا ہے یا نہیں؟وہ اپنے دل کو آزمائے ۔پس اگر کوئی ہماری دوستی کے ساتھ ہمارے دشمنوں سے محبت کرے تو وہ ہم سے نہیں ہے اور ہم اس سے نہیں ہیں ۔خداوند ،جبرئیل اور میکائیل ایسے افراد کے دشمن ہیں اور خداوند کافروں کے لئے دشمن ہے۔
اس بناء پر محبت کی نشانی( کہ جس کا لازمہ اہلبیت علیھم السلام کی اطاعت و پیروی ہے) انسان کا ان ہستیوں میں جذب ہو جانا اور ان کے دشمنوں سے بیزاری ہے۔انسان ایسی محبت کے وسیلے سے اہلبیت علیھم السلام میں کھو جاتا ہے ۔پھر وہ اپنے محبوب اور محبوب کی پسندیدہ چیزوں کے علاوہ کسی اور کے بارے میں نہیں سوچتا۔ایسے حالات محب کے محبوب میں جذب ہونے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
جناب خدیجہ علیھا السلام پیغمبر اکرم (ص)کے سفر پر جاتے وقت فرماتیں:
قَلْبُ الْمُحِبِّ اِلَی الْأَحْبٰابِ مَجْذُوْب وَ جِسْمُهُ بِیَدِ الْأَسْقٰامِ مَنْهُوْب (1)
محب کا دل احباب میں مجذوب ہو جاتا ہے حلانکہ اس کا جسم بیماریوں کے ہاتھوں گرفتار ہوتا ہے۔
--------------
[1]۔ بحار الانوار:ج16ص29