اسی لئے کائنات کے سب سے پہلے مظلوم امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں:
''لاٰ تَقُلْ کُلَّ مٰا تَعْلَمُ''
تم جو کچھ جانتے ہو وہ سب بیان نہ کرو۔
آپ نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:
''مَنْ کَتَمَ سِرِّهِ کٰانَتِ الْخِیَرَةُ بِیَدِهِ'' (1)
جو کوئی اپنے راز چھپائے ،اس کا اختیار اس کے ہاتھ میں رہے گا۔
کیونکہ جب بھی وہ اصلاح دیکھے تو اسے دوسروں کے سامنے بیان کر سکتاہے ؛لیکن اگر اس نے اپنا راز فاش کر دیا تو اسے اس کا نقصان ہو گا اس کے بعد وہ اپنے فاش راز کو نہیں چھپا سکتا۔
بلکہ کبھی کبھار اپنے راز کو فاش کرنے کے علاوہ اپنے روحانی حالات بھی کھو دیتا ہے کیونکہ بعض افراد کو زحمتیں برداشت کرکے کچھ معنوی نتائج حاصل ہوتے ہیں لیکن اِدھر اُدھر کی باتیں کہنے سے وہ اپنی معنوی حالت کھو بیٹھتا ہے جس کی وجہ سے غرور تکبر اور تمام منفی روحانی بیماریوںمیں مبتلا ہو جاتاہے اور اس کے منفی نتائج سامنے آتے ہیں۔ ایسے امور سے بچنے کا بہترین ذریعہ اپنی زبان کی حفاظت کرناہے۔
تا نشانسی گھر بارِ خویش طرح مکن گوھر اسرار خویش
لب مگشا گر چہ در و نوش ھاست کز پس دیوار بسی گوش ھاست
--------------
[1]۔ نہج البلاغہ کلمات قصار:162