اب دنیاکی سامراجی طاقتیںاپنے سیاسی راز و اسرار نہ صرف یہ کہ دوسرے ملکوں بلکہ اپنی قوم اور اپنے ملک کی بہت سی سیاسی شخصیات سے بھی چھپاتی ہیںاور انہیں صرف چند مخصوص افراد تک ہی محدود رکھتی ہیں۔
اسی طرح بڑے صنعتی دفاتر اور کمپنیاں اپنی کامیابی کا سبب رازداری کو قرار دیتے ہیں اور اپنے راز فاش ہونے کو اپنی شکست اور رقیبوں کی فتح مانتے ہیں۔
لیکن مکتب اہلبیت علیھم السلام میں لوگوں کو رازداری کا حکم ایسے چھوٹے مقاصد کے لئے نہیں دیا گیا کیونکہ ان ہستیوں کی نظر میں اگر راز بتانا مومن بھائیوں کی ترقی و پیشرفت کا باعث ہو اور اس میں کسی طرح کے فساد کا کوی خوف نہ ہوتو اس میں کوی مضائقہ نہیں ہے۔اسی لئے حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے حضرت کمیل سے فرمایا:
''یٰا کُمَیْلُ لاٰ بَأْسَ أَنْ تُعْلِمَ اَخٰاکَ سِرِّکَ'' (1) اے کمیل!اپنا راز اپنے (دینی)بھائی کو بتانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اس بناء پر انسان اسے اپنا راز بتا سکتا ہے جو ہمیشہ اس کے ساتھ بھائیوں کی طرح باقی رہے۔
اب یہ سوال درپیش آتاہے:اگر نزدیکی دوستوں کو راز بتانے میں کوئی حرج نہیں ہے تو پھر روایات میں اپنا راز چھپانے کی اتنی تاکید کیوں کی گئی ہے؟(2)
--------------
[1]۔ بحار الانوار:ج۷۷ص۴۱6، تحف العقول:171
[2] ۔ حضرت علی علیہ السلام نے ایسے بھائیوں کے کچھ شرائط بیان فرمائے ہیں جنہیں جاننے کے لئے بحار الانوار: ج۷۷ص۴۱6 کی طرف رجوع فرمائیں۔