14%

لیکن آپ نے اس کیطرف توجہ نہیں کی اوریہ ایک بیابانی بچہ یوں ہی آپ سے متوسل ہوا آپ نے اس کی حاجت روا فر مادی۔اس سے میں یہ سمجھا ہوں کہ آپ کی نظر میں میری چالیس سال تک زیارت،مجاورت اور تحصیل علم میں مشغول رہنا اس بچے کے برابر بھی اہمیت نہیں رکھتا۔اس لئے اب میں اس شہر میں نہیں رہوں گااور ایران ہجرت کر جاؤں گا۔

میں یہ باتیں کہہ کر حرم سے باہر آ گیا اور  سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے حرم میں اس طرح سے ایک مختصر سا سلام کیا جیسے کوئی اپنے آقا سے ناراض ہو اور پھر میںاپنے گھر آگیا۔میں نے اپنا سامان  باندھا اورنجف کی طرف اس ارادے سے روانہ ہو گیا کہ وہاں سے اپنے بال بچوں کو لے کر ایران چلا جاؤں گا۔

 جب میں نجف اشرف پہنچا تو میں صحن کے راستے  گھر کی طرف روانہ ہوا میں نے صحن میں شخ انصاری کے خادم ملّا رحمت اللہ کو دیکھا ۔میں نے ان سے ہاتھ ملایا اور گلے ملا۔انہوں نے کہا: آپ کو شیخ بلا  رہے تھے۔میں نے کہا:شیخ کو کیسے پتا چلا ؟!  میں تو ابھی یہاں آیا ہوں؟

 انہوں نے کہا:مجھے نہیں معلوم البتہ میں اتنا جانتا ہوں کہ انہوںنے مجھ سے فرمایا:صحن میں جاؤ، شیخ عبدالرحیم کربلا سے آ رہے ہیں انہیں میرے پاس لے آؤ۔

 میں نے خود سے کہا:نجف کے زائرین عام طور پر ایک دن زیارت مخصوصہ کے لئے کربلا رہتے ہیں اور اس سے اگلے دن واپس آتے ہیں اور اکثر صحن کے راستے ہی داخل ہوتے ہیں شاید اسی لئے انہوں  نے ملّا رحمت اللہ سے کہا مجھے صحن میں دیکھو ۔ہم دونوں شیخ کے گھرکی طرف روانہ ہوئے ۔ جب ہم گھر کے بیرونی حصے میں  داخل  ہوئے تو وہاں کوئی نہیں تھا اس لئے ملاّ نے اندرونی  دروازہ کھٹکھٹایا۔شیخ نے آواز دی:کون ہے؟ملّا نے عرض کیا:میں شیخ عبدالرحیم کو لایا ہوں۔