14%

 شیخ تشریف لائے اور ملاّسے فرمایا:تم جاؤ۔جب وہ چلے گئے تو انہوں نے میری طرف دیکھ کر فرمایا:آپ کی دو حاجتیں ہیں اور انہوںنے وہ دونوں حاجتیں بھی بتا دیں ۔

 میں  نے عرض کیا:جی ہاں ! ایسا ہی ہے۔

 شیخ نے فرمایا:فلاں حاجت میں پوری کر دیتا ہوں اور دوسری کا تم خود استخارہ کرلو۔اگر استخارہ بہترآئے تو میں اس کے مقدمات فراہم کر دوں گااور پھر اسے خود ہی انجام دو۔

 میں  نے جاکراستخارہ کیا۔استخارہ بہتر آگیا جس کا نتیجہ میں  نے آکر شیخ کی خدمت میں  عرض کیا تو انہوں  نے قبول کر لیا اور اس کے مقدمات فراہم کر دیئے۔(1)

 یہ شیخ کی کرامات کا ایک نمونہ ہے جو جلیل القدر عالم مرحوم شیخ عبدالرحیم کے ذریعے فاش ہوا ۔ اسی طرح شیخ انصاری  اور شیعہ تاریخ کی بزرگ علمی ومعنوی شخصیات سے دیکھے گئے واقعات بہت زیادہ ہیںکہ جن سے ہم مجموعاًیہ نتیجہ لیتے ہیں:

 اولیائے خدا رازوں کو چھپانے اور پنی ظرفیت و قابلیت سے نہ صرف امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے فرمان پر ذمہ داری انجام دیتے ہیں بلکہ خاندان ولایت علیھم السلام کے بیکراں لطف سے تما م اہلبیت اطہار علیھم السلام سے مرتبط ہو کر ان کے احکامات کو انجام دیتے  اور انہیں  مخفی رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اغیار سے منہ موڑ کر اپنے دل کی گہرائیوں سے خدا تک وصل کاراستہ بناتے ہیں کیونکہ ''فصل''  وصل کا مقدمہ ہے اور'' وصل ''فصل کانتیجہ ہے۔اس بناء پر صاحبان اسرار کا آئمہ اطہار علیھم السلام سے اتصال ایک ایسا مسئلہ ہے جو حقیقت و واقعیت رکھتا ہے ۔اگرچہ انہوں نے اسے مخفی رکھنے کی بہت کوشش کی اور اس کا انکار بھی کرتے رہے۔ بزرگ شیعہ علماء سے روایت ہونے والے بہت سے واقعات ان کی رازداری پر  دلالت کرتے ہیں

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۹۵ ص۳۰6