21%

انسان کا کیمرہ جتنا اچھا ہو گا ،وہ اتنی ہی اچھی تصویر لے گا اور وہ تصویر کی خصوصیات کو اچھے طریقے سے دکھائے گا۔لیکن تصویر جتنی بھی اچھی کیوں نہ ہو وہ پھر بھی تصویر ہی ہے نہ کہ خود وہی شے۔ہم کسی چیز کی تصویر کو اس چیز کی ذات اور حقیقت قرار نہیں دے سکتے ۔کیونکہ تصویر جتنی بھی   معارف الٰہی اور شناخت خدا و اہلبیت اطہار علیھم السلام کے باب میں بھی یہی مسئلہ جاری ہوتاہے  کیونکہ ہم جتنا بھی خدا کی عظمت و قدرت کو جان لیں اور جس قدر بھی بہتر انداز سے اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام کو پہچانیں ،پھر بھی ہم نے ان ہستیوں کی عظمت کوغور و فکر اور اپنی محدود عقل کے ذریعہ پہچانا ۔پس ہمارے تمام تر اعتقادات ہماری عقل کی حد کے مطابق ہیں اور حقیقت میں ہم ان کی عظمت کو اپنی محدودفہم  و عقل سے درک کرتے ہیں۔(1)

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری معرفت کامل اور بہتر ہو  اورہم اپنے ذہن میں جن چیزوں کو تصور کرتے ہیں اور جن کے بارے میں سوچتے اور انہیں پروان چڑھاتے ہیں ،وہ حقیقت سے زیادہ نزدیک ہوں تو ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے معارف مکتب وحی سے سیکھیں  اور  مکتب اہلبیت علیھم السلام کے حیات بخش فرامین کی روشنی میں حقایق کی جستجو کریں اور ان کے احکامات کو تسلیم کریں۔اگرچہ وہ ہماری فہم اور فکری سطح کے مطابق نہ ہوں ۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے قلب کی تاریکی کو ان کے نورانی کلمات سے منور کریں ورنہ دل کی یہ تاریکی اپنا کام کر دیتی ہے اور انسان کو تباہی و بربادی کی طرف لے جاتی ہے۔

عقاید و معارف اہلبیت علیھم السلام سے آشنائی اور ان کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے نفس کو جلا و صفا ملتی ہے اور ضمیر ان کے تابناک انوار سے روشن و منور ہوتاہے ۔پھراگرتکامل حاصل ہو جائے تواس سے انسان کے ذہن میں بچپن سے موجود غلط اعتقادات بلکہ نسل در نسل اور وراثت میں ملنے والے  غلط عقائد بھی پاک ہو جاتے ہیں۔

--------------

[1] ۔ اس کی مزید وضاحت کے لئے بہت اہم روایت کی طرف رجوع فرمائیں جسے مرحوم شیخ بہائی نے اپنی کتاب''اربعون حدیثاً:81'' میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کیا ہے۔