گذشتہ زمانے سے ابھی غیبت کے زمانے تک انسان نے اپنے ذہن کے صرف کروڑویں حصے کو ہی بروئے کار لایا ہے اور بقیہ حصے سے استفادہ نہیں کیا۔
یہاںذہن میں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ جو انسان اب تک اپنے ذہن کی تمام توانائیوں کو بروئے کار نہیں لا سکااور جس میں اپنے ذہن کی توانائیوں کو پہچاننے کی قدرت نہیں ہے تو وہ انسان خاندان وحی علیھم السلام کی ہدایت و رہنمائی کے بغیر صرف اپنے ذہن کی توانائیوں کے کروڑویں حصے پر ہی بھروسہ کرتے ہوئے کس طرح معارف الٰہی حاصل کر سکتا ہے اور کس طرح خالق کائنات کو پہچان سکتاہے۔
پس یہی بہتر ہے کہ انسان خود کو شاہدان خلقت کے ارشادات کے سپرد کر دے اور دوسروں کے دھوکے ومکاری کے جال میں پھنس کر فریب نہ کھائیں اور
دوسروں کو بھی فریب نہ دیں۔
مگر کیا خداوند متعال نے قرآن مجید میں یہ نہیں فرمایاہے:
(یَا أَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَکُونُواْ مَعَ الصَّادِقِیْنَ) (1)
اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ ہوجاؤ۔
مگریہ کس طرح ممکن ہے کہ انسان ایمان اور تقویٰ رکھتا ہو اور اس آیت شریفہ کی رو سے معصومین علیھم السلام کے ساتھ بھی ہو لیکن وہ اپنے اعتقادات و عقائد دوسرے مکاتب سے اخذ کرتاہو؟!
--------------
[1]۔ سورۂ توبہ ،آیت:119