7%

عبادات اسی صورت میں کوئی اہمیت رکھتی ہیں کہ جب وہ بہت زیادہ تأثیر رکھتی ہوں اور جب وہ انسان کے باطن میں تبدیلی پیدا کر یں۔اس بناء پر عبادات کی اہمیت کا اندازہ عبادت کرنے والوں میں تبدیلی ایجاد ہونے سے ہی لگایا جا سکتاہے۔

اس بیان سے یہ واضح ہو جاتاہے کہ اپنے نفس میں تبدیلی ایجاد کرنے والے اور معنوی توانائیوں سے بہرہ مند ہونے والے اولیائے خدا کی کامیابی کا معیار ان کی عبادتوں کی تأثیر ہے نہ کہ ان کی کثرت عبادت۔اگرچہ بہت سے مقامات پر عبادات کی تأثیر ،عبادات کی کثرت پر ہی موقوف ہوتی ہے۔لیکن یہ ایک کلّی قانون نہیں ہے۔

اس حقیقت پر ہماری دلیل حضرت امام صادق علیہ السلام کے خاص صحابی جناب مفضل سے منقول روایت ہے ۔آپ نے فرمایا:

''کُنْتُ عِنْدَ اَبِ عَبْدِاللّٰهِ علیه السلام فَذَکَرْنَا الْاَعْمٰالَ ،فَقُلْتُ اَنَا مَا أَضْعَفَ عَمَلِْ؟فَقٰالَ:مَهْ اِسْتَغْفِرِ اللّٰهَ،ثُمَّ قَالَ لِْ:اِنَّ قَلِیْلَ الْعَمَلِ مَعَ التَّقْویٰ خَیْر مِنْ کَثِیْرٍ بِلاٰ تَقْویٰقُلْتُ:کَیْفَ یَکُوْنُ کَثِیْر بِلاٰ تَقْویٰ ؟قَالَ:نَعَمْ ،مِثْلُ الرَّجُلِ یُطْعِمُ طَعٰامَهُ،وَ یُرْفِقُ جِیْرٰانَهُ وَ یَوَطِّیُٔ رَحْلَهُ،فَاِذٰا ارْتَفَعَ لَهُ الْبٰابُ مِنَ الْحَرٰامِ دَخَلَ فِیْهِ ،فَهٰذَا الْعَمَلُ بِلاٰ تَقْویٰ ،وَ یَکُوْنُ الآخَرُ لَیْسَ عِنْدَهُ فَاِذَا ارْتَفَعَ لَهُ الْبَابُ مِنَ الْحَرٰامِ لَمْ یَدْخُلْ فِیْهِ'' ( 1 )

میں حضرت امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضرتھا کہ اعمال کے بارے میں گفتگو شروع ہوئی۔ میں نے کہا:میرے اعمال کتنے کم ہیں ؟!

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج78ص۳۷۳،تحف العقول:486