یعنی تقویٰ اس طرح سے انسان کو آگاہی دیتاہے کہ جب بھی شیطان انسان کے ذہن میں کوئی سوچ و فکر القاء کرے تو وہ فوراً سمجھ جاتا ہے کہ یہ افکار شیطان نے ذہن میں ڈالے ہیں۔
اس بناء پرالٰہی و شیطانی افکار کو ایک دوسرے سے تشخیص دینے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ ان میں سے کس کو اہمیت دیں اور کس سے بے اعتنائی کرتے ہوئے اسے چھوڑ دیں ۔تقویٰ اختیار کریں تا کہ اس کے ذریعے ہم میں الٰہی و شیطانی افکار میں تمیز دینے کی قدرت پیداہو سکے۔
پس تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرنے سے نہ صرف یہ کہہم شیطان کے فریب میں مبتلا نہیںہوں گے بلکہ ہم میں دشمن کو پہچاننے اور اس کے نفوذ کرنے کے طریقوں کو پہچانے کی بصیرت و آگاہی آ جاتی ہے اور عالی مراحل تک پہنچنے کی زیادہ قدرت پیدا ہو جاتی ہے۔
کیونکہ تکامل و پیشرفت ا ور کسی بھی ہدف تک پہنچنے کے لئے اس کے موانع کی شناخت و معرفت ضروری ہے ورنہ انسان پرخطر اور مشکل راستوں کوبا آسانی اور موانع سے آمنا سامنا کئے بغیر طے نہیں کر سکتا ۔
روحانی سیرو سلوک اور معنوی راستوں پر چلنے کے لئے بھی انسان کانفس اور شیطان کی مکاریوں سے آشنا ہونا نہایت ضروری ہے تا کہ انسان اس کے دھوکے اور فریب میں گرفتار نہ ہو جائے ۔ انسان کے لئے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ شیطان اسے کس طریقے سے گمراہ کرتاہے اور کس طرح سے اسے راہ راست سے منحرف کرتا ہے۔
تقویٰ شیطان کے فکری وسوسوں کی شناخت اور شیطانی افکار کی راہوں کو پہچاننے کا ذریعہ ہے۔باتقویٰ افراد الٰہی و شیطانی افکار کو ایک دوسرے سے تشخیص دے سکتے ہیں۔