(وَ إِذا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا)
در حالیکہ ہم کو اپنے "فعل " اور کاموں میں عدل کی رعایت کرنا چاہئے۔
عظیم الشان مفسر ،مرحوم طبرسیرحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کہ یہ اس اعتبار سے ہے کہ اگر گفتار میں عدالت کسی کی عادت ہو جائے تو یہ خود عمل میں بھی عدالت کا سبب ہو جائے گا ۔گفتار میں عدالت افعال میں عملی عدالت کی جانب بڑھنے کیلئے اہم ترین قدم ہے ۔
یہ نکتہ قابل توجہ ہے لیکن اسکے متعلق دوسرے نکتہ کو بھی بیان کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان کا بات کرنے میں مبتلا ہونا عمل کے مرحلہ سے بہت زیادہ ہے ۔کہ گفتگو کرنا ہمیشہ انسان کے ساتھ ہے ۔اور منازعات و مشاجرات میں بھی انسان حکم اور فیصلہ میں شاہد و مئوید کے عنوان سے یا دوسرے عناوین سے گفتگو کرتا ہے کہ جسکی وجہ سے خلاف واقع زبان کھولنے کا امکان رہتا ہے ۔اس مرحلہ پر فرماتے ہیں "یہ امر الہی ان اوامر بلیغہ میں سے ہے کہ جو کم الفاظکے ساتھ زیادہ مفاہیم جیسے اقرار ،گواہیاں ،وصیتیں ،فتوے ،فیصلہ ،احکام ،مذاہب اورامربالمعروف اور نہی از منکر کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے "(1)
بیشک: یہ وہ موارد ہیں کہ جو انسان کے حق و عدل سے انحراف کا سبب ہوتے ہیں اور اس بات کا ڈرپا یا جاتاہے کہ آدمی عدل کے خلاف کلام کرے ۔اور بالخصوص اگر رشتہ داروں کے متعلق ہو ۔
اس وقت ہم ایک عظیم الشان انسان کی داستان کو نقل کرتے ہیں کہ جنہوں نے بالکل صحیح اس آیت پر عمل کیا ۔ محمد ابن ابی حذیفہ معاویہ کی دایہ کے بیٹے تھے ۔
--------------
(1):- مجمع البیان ج۲ ، ص۳۸۴