بیشک قرآن کریم کتاب فطرت ،کتاب دل، پاک و کاکیزہ ضمیر اورکتاب سلیم الطبع ہے۔ اور ہر وہ چیز کہ جوپاک سرشت انسانوں کے دلوں کی گہرائیوں میں پنہاں و پوشیدہ ہے (یعنی وہ انسان کہ جو خواب غفلت میں نہیں پڑے ہوئے ہیں )کو بیان کرتا ہے وجدان اور فطرت سالم اور ان کی خدا جوئی سے ہم آواز اور ھماھنگ ہے ۔اور کون سا روشن ضمیر اور حقیقت شناس انسان ہے کہ جو ایک گمراہ انسان کو ہدایت یافتہ اور با بصیرت انسان کی مانند قرار دے۔اور دونوں کو ایک دوسرے کے برابر و مساوی سمجھے؟
نہیں ؛ ہر گز وہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے ۔کیونکہ ان میں ایک باطل پر گامزن ہے اور نہ جانتے ہوئے بھی اسی پر آگے بڑھا چلا جا رہا ہے ۔اور دوسرا وہ ہے کہ جوحق اور انسانیت کی راہ میں قدم اٹھاتا ہے ۔یعنی پہلاانسان ظلمت وگمراہی میں پڑا ہوا ہے اور دوسرا نور و ہدایت میں غرق، اور اطمینان و سکون اور کھلے ذہن کےساتھ اپنی نورانی ہدایت کو آگے بڑھاتا ہے ۔لہٰذا یہ دونوں ایک دوسرے کے برابر کیسے ہو سکتے ہیں ؟
صراط مستقیم اس سے پہلے کہ راہ کے خواہاں ،پاک و پاکیزہ اورخود یافتہ انسانوں کی راہ ہو۔خدا وند عالم ،افضل المرسلین ﷺاور اولیاء الہی کی راہ ہے۔ قرآن کریم اس گفتگو کے ضمن میں (کہ جو حضرت ہودعلیہ السلام اور ان کی قوم کے درمیان ہوئی )ارشاد فرماتا ہے ، حضرت ہود علیہ السلامنے ان سے کہا ۔
(إِنِّي تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ رَبِّي وَ رَبِّكُمْ ما مِنْ دَابَّةٍ إِلاَّ هُوَ آخِذٌ بِناصِيَتِها إِنَّ رَبِّي عَلى صِراطٍ مُسْتَقيمٍ)(56)(1)
میرا اعتماد پروردگار پر ہے جو میرا اور تمہارا سب کا خدا ہے اور کوئی زمین پر چلنے والا ایسا نہیں ہے جسکی پیشانی اسکے قبضہ میں نہ ہو ۔میرے پروردگار کا راستہ بالکل سیدھا ہے ،
--------------
(1):- سورہ ھود اآیۃ ۵۶