بے شک دنیا میں جتنے بھی انبیاء ؛ اوصیاء اور مصلح آئیں ہیں ان سب کی تمام تر کوششیں لوگوں کی معنوی زندگی کورشد دے کر انھیں مقام انسانیت تک لے جانے کے لیے تھا اور انسان کو اسی معنوی زندگی کی وجہ ہے ہی انسان کہا ہے اور اسی سے ہی دیگر حیوانات سے جدا ہوتا اور اسی راہ سے ہی انسان کو راز خلقت (جو کہ قرب الھی) ہاتھ آتا ہے جبکہ معنویت کی کمزوری ہر دور میں تمام تر معاشرتی اور فردی بد بختیوں اور خرابیوں کا پیش خیمہ بنی ہے لھذا جسطرح قرآن مجید نے ہمیں خبر دیا ہے :الَّذِینَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فىِ الْأَرْضِ أَقَامُواْ الصَّلَوةَ وَ ءَاتَوُاْ الزَّكَوةَ وَ أَمَرُواْ بِالْمَعْرُوفِ وَ نَهَوْاْ عَنِ الْمُنكَرِ وَ لِلَّهِ عَقِبَةُ الْأُمُو * (1) یہ وہ لوگ ہیں، اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوۃ ادا کریں گے اور نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے اور تمام امور کا انجام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ حضرت مھدی عجل ﷲ فرجہ الشریف کی حکومت عدل الھی کے سایے میں ہر جگہ برائیون اور تباہیوں کی جگہ معنویت اور عبودیت لے آئےگئی اور جب معاشرے میں معنویت عام ہو جائے تو خود بخود اس معاشرے میں صدق؛ صفا ؛ ایثار ؛ محبت ؛ اچھائی؛ اور نیکی پھیل جائیں گے اورزندگی کے تمام پہلو میں انسانی اقدار کی رونق اور شادابی ہو گئی۔ چنانچہ امیر المؤمنیں فرماتے ہیں ک لوگ حضرت مھدی کے زمانے میں عبادت اور معنویت کی طرف مائل ہوں گے اور نماز جماعت سے پڑھیں گے(2) : نیز فرماتے ہیں انکے دور میں لوگوں کے دلوں سے کینے ختم ہو جائیں گے(3)
--------------
(1):- حج :41
(2):- احقاق الحق ؛ج13 ؛ ص 312
(3):- الغیبة طوسی ؛ ص295