7%

ہدایت کے لئے جدو جہد

خداوند عالم قرآن میں فرماتاہے :

البتہ اس شخص کے لیے میری مغفرت اور بخشش زیادہ ہے جو توبہ کرے مجھ پر ایمان لائے اور نیک بن جائے۔( طہ/ ۸۲)

یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ توبہ، ایمان اور نیک عمل خدا کی خوشنودی و مغفرت کےلیے کافی نہیں بلکہ ہدایت بھی ساتھ ہونی چاہئے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

خدواند عالم کسی کی مغفرت نہیں کرتا مگر یہ کہ وہ توبہ کرے، ایمان لائے، نیک بن جائے ، اور ہم اہل بیت(ع) کی ولایت سے ہدایت پائے۔ بحار الانوار/ج۲۷/ص۱۷6/ح۲۲)

اس بنا پر ہدایت تکوینی اور ہدایت تشریعی دو مترادف خط ہیں اور ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں۔ تکوینی ہدایت اللہ کی جانب سے ایک احسان ہے جو اس نے اپنی تمام مخلوقات پر کیا ہے اور تمام بندوں کے شامل حال ہے۔ وہ خود قرآن میں فرماتاہے :

قسم ہے جان کی اور جس نے اسے درست کیا اور پھر اسے اس کے اچھے، رے کی تمیز سمجھا دی۔(شمس/ ۷)

دوسری جگہ فرماتا ہے:

اور ہم نے اسے (یعنی انسان کو) راہ دکھادی اب چاہے وہ شکر گزار ہو یا سرکش بن جائے۔ (انسان/ ۳)