قوت سے اس چھڑی کو باہر کھینچا۔ اسکے دونوں کنارے ٹیڑھے ہوگئے تھے۔ عروہ نے کہا میں نے اسے آںحضرت(ص) سے مانگا، پس آںحضرت(ص) نے اسے دے دیا۔ اور جس وقت آںحضرت(ص) نے وفات فرمائی تو حضرت ابوبکر نے اسے مانگ لیا اورجس وقت حضرت ابوبکر دنیا سے رخصت ہوئے تو حضرت عمر نے طلب کر لیا ان کے مرنےکے بعد حضرت عثمان نے مانگا اور انھیں دے دی گئی۔ لیکن حضرت عثمان کے قتل کے بعد خاندان علی(ع) کے پاس آگئی۔ پھر عبداللہ بن زبیر نے مانگا اور انھیں دے دی گئی اور انھیں کے پاس تھی یہاں تک کہ وہ بھی قتل کردیئے گئے۔
اس روایت سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ خود رسول خدا(ص) نےزبیر کے اس عصا کا احترام کیا جس سے زبیر جنگ میں طاقتور دشمنوں کو قتل کیا کرتے تھے، ابو عبیدہ بن سعید بن عاص، جس نے زرہ پہن رکھی تھی تاکہ تلوار اور نیزہ سے محفوظ رہے اور سوائے آنکھوں کے کوئی حصہ دکھائی نہ دیتا تھا لیکن زبیر نے عصاکے ذریعہ اس کی آنکھ پر حملہ کیا اور اسے قتل کر ڈالا اور پھر پوری قوت لگا کر اسے باہر نکالا۔
سچ یہ تو بڑاعجیب و غریب عصا ہے۔ کہیں عصائے حضرت موسی(ع) کی نسل سے تو نہیں ہے۔ جس کو موسی(ع) نے دریائے نیل پر مارا تھا اور اسی کے مارنے سے بارہ چشمے بھی پھوٹ پڑے تھے۔ سبحان اللہ!
پھر تو تعجب کی جگہ نہیں کہ پیغمبر(ص) اس کو زبیر سے مانگیں تاکہ اس سے تبرک حاصل کریں یا پھر وہ چاہتے تھے اس احترام کے جواز کو سمجھائیں اور یہی احتمال قوی ہے۔ خصوصا اس وقت جب کہ ہمیں یہ معلوم ہو کہ آںحضرت(ص) کے بعد تمام خلفاء نے وہ عصا طلب کیا اور ان کی عمر کے آخری لمحہ تک ان کے ساتھ رہا۔ اور بالاخرہ عبداللہ بن زبیر کو واپس مل گیا۔ اور وہ اس کے زیادہ مستحق تھے کیونکہ وہ ان