7%

نیکی کی طرف دعوت اور برائی سے روکنا

اس نئے تمدن نے سامراج کےدرمیان جن سیاسی مشکلات کوجنم دیا ان  میں سے ایک خود بینی بھی ہے۔ یعنی ہر آدمی صرف اپنی فکر میں ہو اور دوسرون کا ذرا بھی خیال نہ کرے۔ خود سلامت رہے، دوسرے جہنم میں جائیں! یہ بدترین صورت حال ہے جس مٰںآج کا انسانی سماج گرفتار ہے وہ بھی اس طرح کہ امت کے مفادات تو خطرہ میں وہں اور انجام نا معلوم ہو لیکن نہ کوئی آواز اٹھائے اور نہ آگے قدم بڑھائے۔ ایسی صورت میں بہادری، مردانگی، ایثار، جہاد، ظالموں کے مقابلہ میں استقامت جیسے عظیم اقدار نابود ہوجائیں گے۔ دین کا رنگ پھیکا اور ضمیر کی موت واقع ہوجائے گی۔

جیسا کہ ہم نے پہلے قرآن سے استدالال پیش کیا، بعض احادیث کے ذریعہ بھ اسی طرح استدالال پیش کرںگے۔ رسول خدا(ص) کا قول جس پر سبھی کا اتفاق ہے سے ساتھ ملکر پڑھتے ہیں۔ آںحضرت(ص) فرماتے ہیں:

”تم کو چاہئے کہ لوگوں کو بیکی کی طرف دعوت دو اور برائی سے روکو نہیں تو خدا تم میں سب سے برے کو تم پر مسلط کردے گا پھر تمہارے اچھے لوگ دعا کریں گے لیکن ان کی دعا مستجاب نہ ہوگی۔“

نیکی کی دعوت اور برائی سے روکنا امت کی زندگی کے لیے ایک لازمی امر ہے اسی لئے ائمہ(ع) نے اسے دین کے ارکان میں شمار کیا ہے۔ یہی وہ ہے کہ معاصر اسلامی گروہ جو نعرہ سب سے پہلے بلند کرتے ہیں وہ امربالمعروف اورنہی ازمنکرکا نعرہ ہے۔ لیکن ترقی یافتہ سماج شدت سے اس نعرہ کے مخالف ہیں اور