تحریف والی بات جو مشہور ہوئی ہے وہ تحریف معنوی ہے نہ لفظی.
اسی طرح ہمارے آئمہ طاہرین کی طرف سے یہ بھی حکم ہے کہ اگر کوئی روایت تمہیں ملے اسے قرآن کے ساتھ موازنہ کرو اگر خلاف قرآن نکلے تو اسے دیوار پر دے مارو. یعنی دور پھینک دو:اعرِضُوهُمَا عَلَی كِتَابِ اللهِ فَمَا وَافَقَ كِتَابَ اللهِ فَخُذُوهُ وَ مَا خَالَفَ كِتَابَ اللهِ فَرُدُّوهُ. (1)
یہ ساری دلیلیں بتاتی ہیں کہ شیعہ تحریف قرآن کے قائل نہیں ہے بلکہ ان پر وہابیوں کی طرف سے صرف بہتان اور تہمت ہے.
لیکن اس کے مقابلے میں خود اہل سنت کی کتاب صحیح بخاری میں ایک روایت نقل کی ہے جس میں صراحت کےساتھ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عمر اور حضرت عایشہ تحریف کے قائل ہیں:
سؤال 147: کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت عمر تحریف قرآن کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ کچھ آیات جیسے آیۃ رجم مفقود ہوئی ہیں؟!
جواب: صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایات کی روشنی میں ثابت ہے کہ حضرت عمر تحریف قرآن کے قائل تھے۔ ان کے قول کا اصل متن یہ ہے:
--------------
(1):- وسائل الشیعہ، جلد 18، صفحہ 80.