منافقین کہتے ہیں : ٹھیک ہے یہاں تک ہم نے مان لیا لیکن تم لوگ دشمنان امام پر لعن طعن کیوں کرتے ہو ؟ یہ تو ایک قسم کی خشونت اور بدبختی ہے اور ایک منفی احساس ہے کیوں کہتے ہو: اتقرب الی اللہ بالبرائة من اعدائک ؟ کیوں زیارت عاشورا میں سو مرتبہ لعن کرکے دوسروں کو بد ظن کرتے ہو ؟ آ ئیں سو مرتبہ سلام بیںں س. یہ زمانہ ایسا آیا ہے کہ سارے لوگوں کے ساتھ خوشی اور صلح و صفائی کے ساتھ زندگی کرے کیا اسلام دین محبت نہیں ہے ؟ اسلام دین رحمت و رافت نہیں ہے ؟
فرض کریں ایک نوجوان ہم سے سوال کرے کہ کیوں قاتلان حسین پر لعن کرتے ہیں ؟ زیارت عاشورا میں سو مرتبہ لعن کی بجائے سو مرتبہ پھر سلا م بھیجے کیا فرق پڑے گا اور یہ لعن و طعن اور اظہار برائت کی کیا ضرورت ہے؟!!
جواب: سرشت انسان جس طرح فقط شناخت سے تشکیل نہیں پایا ہے اسی طرح فقط مثبت احساسات سے بھی نہیں بلکہ شناخت اور مثبت احساسات کے ساتھ منفی احساسات بھی رکھتا ہے جس طرح خوشی کے ساتھ ساتھ غم بھی پایا جایا ہے پس جہاں رونا ہو وہاں رونا ضروری ہے ، جہاں ہنسنا ہو وہاں ہنسنا ضروری ہے. پس ہو مقام اور مناسبات کی تلاش کرنا چاہیئے کہ جہاں رونا ہوگا یا برعکس والا رونے اور ہنسنے کی استعداد وجود انسان میں لغو ہوجائے گا. کیونکہ رونا وجود انسان میں بہترین احساس ہے اگر گریہ خدا کے خوف میں یا خدا سے ملاقات کے شوق میں ہو تو یہ کمال انسانی کا موجب بنتا ہے خدا وند تعالیٰ ہم میں محبت کو خلق کیا ہے کہ جب اپنے دوستوں ،بہن بھائیوں سے بچھڑ جائے یا ان پر کوئی مصیبت پڑے تو رونا کمال عقلائی و عاطفی ہے. کیونکہ خود دنیا مؤمن کی نگاہ میں اہمیت نہیں رکھتی. اگر کسی مؤمن پر دنیوی نقصان آئے تو زیادہ مغموم نہیں ہوتا کیونکہ خود دنیا مؤمن کی نگاہ میں اہمیت نہیں رکھتی لیکن اگر اخروی نقصان ہو اور دشمن اس کا دین چھین لے اور سعادت ابدی کو انسان سے چھین لے تو اسے برداشت نہیں کرسکتا. چنانچہ قرآن کریم بتا رہا ہے :