7%

اس اشکال کیلئے یوں جواب دے سکتے ہیں ؛ تبلیغ کبھی اصول دین سے مربوط ہے اور کبھی فروع دین سے اور جب بھی تبلیغ اصول دین سے مربوط ہو اور تبلیغ نہ کرنا باعث بنے کہ لوگ دین سے آشنائی پیدا نہ کرے اور لوگوں کی دین سے آشنائی اسی تبلیغ پر منحصر ہو تو یہاں تقیہ حرام ہے اور دائرہ تقیہ کو توڑ کر تبلیغ میں مصروف ہونا چاہئے ، اگرچہ تقیہ ضرر جانی یا مالی کا سبب کیوں نہ بنے ؛ کیونکہ آیات مذکورہ اور داخلی اور خارجی قرینے سے پتہ چلتا ہے کہ تقیہ اسی نوع میں سے ہے یہاں تقیہ بے مورد ہے .

 لیکن اگر تقیہ فروع دین سے مربوط ہو تو یہاں تبلیغ اور جانی ومالی نقصانات کا مقائسہ کرے گا کہ کس میں زیادہ مصلحت پائی جاتی ہے ؟ اور کون سا زیادہ مہم ہے ؟اگر جان یا مال بچانا تبلیغ سے زیادہ مہم ہو تو وہاں تقیہ کرتے ہوئے تبلیغ کو ترک کرنا واجب ہے مثال کے طور پر ایک  کم اہمیت والا فقہی فتویٰ دے کر کسی فقیہ  یا عالم دین کی جان پچانا.

تقیہ اور ذ لّت مؤمن

اشکال :وہابی لوگ کہتے ہیں کہ تقیہ مؤمن کی ذلت کا باعث ہے خداتعالیٰ نے ہر اس چیز کو جو باعث ذلت ہو ،اسے شریعت میں حرام قرار دیا ہے اور تقیہ بھی انہی میں سے ایک ہے.(1)

جواب:اس جملے کاصغریٰ مورد اشکال ہے کیونکہ یہ بات قابل قبول نہیں کہ اگر تقیہ کو اپنے صحیح اور جائز موارد میں بروی کار لایا جائے تو موجب ذلت نہیں ہوسکتا کیونکہ دشمن کے سامنے ایک اہم مصلحت کی خاطر حق بات کرنے سے  سکوت اختیار کرنا یا حق کے خلاف اظہار کرنا نہ  ذلت کا سبب  ہے اور نہ مذمت کاباعث

چنانچہ عمار ابن یاسر نے ایسا کیا تو قرآن  کریم نے بھی اس کی مدح سرائی  شروع کی .

--------------

(1):- .      موسی موسوی؛ الشیعہ و التصحیح ، ص ۶۷.