اس اشکال کو سلیمان ابن جریر زیدی نے مطرح کیا ہے ،جوعصر آئمہمیں زندگی کرتا تھا .وہ کہتا ہے کہ رافضیوں کے امام نے اپنے پیروکاروں کیلئے دو عقیدہ بیان کئے ہیں جس کی موجودگی میں کوئی بھی مخالف ان کے ساتھ بحث و مباحثہ میں نہیں جیت سکتا.
شیعیان اپنے اماموں سے مختلف مواقع پر سوال کرتے تھے اور وہ جواب دیاکرتے تھے اور شیعہ لوگ ان روایات اور احادیث کو یاد رکھتے اور لکھتے تھے ،لیکن ان کے امام ، چونکہ کئی کئی مہینے یا سال گذرجاتے لیکن ان سے مسئلہ پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا ؛ جس کی وجہ سے وہ پہلے دئے ہوئے جوابات بھی بھول جاتے تھے کیونکہ اپنے دئے گئے جوابات کو یاد نہیں رکھتے تھے اس لئے ایک ہی سوال کے مختلف اور متضاد جوابات دئے جاتے تھے .اورشیعہ جب اپنے اماموں پر ان اختلافات کے بارے میں اشکال کرتےتھے تو توجیہ کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ہمارے جوابات تقیۃً بیان ہوئے ہیں .اور ہم جو چاہیں اور جب چاہیں جواب دے سکتے ہیں .کیونکہ یہ ہمارا حق ہے. اور ہم جانتے ہیں کہ کیا چیز تمہارے مفاد میں ہے اور تمہاری بقا اور سالمیت کس چیز میں ہے .اور تمھارے دشمن کب تم سے دست بردار ہونگے .
سلیمان آگے بیان کرتا ہے : پس جب ایسا عقیدہ ایجاد ہوجائے تو کوئی بھی ان کے اماموں پر جھوٹے ہونے کا الزام نہیں لگا سکتا اور کبھی بھی ان کے حق اور باطل میں شناخت نہیں کرسکتا. اور انہی تناقض گوئی کی وجہ سے بعض شیعیان ابو جعفر امام باقر(ع) کی امامت کا انکار کرنے لگے(1)
--------------
(1):- ۱. نوبختی؛ فرق الشیعہ ، ص ۸۵ ـ۸۷.