ثانیاً : امام کا تقیہ کرنا اپنی جان کے خوف سے نہیں بلکہ ممکن ہے اپنے اصحاب اور چاہنے والوں کی جان کے خوف سے ہوں ؛ یا اہل سنت کے ساتھ مدارات اور اتحاد کی خاطر تقیہ کئے ہوں. دوسرے لفظوں میں اگر کہیں کہ تقیہ کبھی بھی جان یا مال کے خوف کے ساتھ مختص نہیں ہے
ثالثاً: جو لوگ دوسرے مبنا کے قائل ہیں ممکن ہے کہہ دیں کہ امام اپنی موت کے وقت اور کیفیت کا علم رکھتے تھے اور ساتھ ہی جان کا خوف بھی کھاتے اور تقیہ کے ذریعے اپنی جان بچانا چاہتے تھے
ان دو شیعہ عالم دین پر جو اشکال وارد ہے یہ ہے ، کہ اگر آپ آئمہ کے تقیہ کا انکار کرتے ہیں تو ان تمام روایتوں کا کیا جواب دیں گے کہ جن میں خود آئمہ طاہرین تقیہ کے بہت سے فضائل بیان فرماتے ہیں اور ان روایتوں کا کیا کروگے جو امام کے تقیہ کرنے کو ثابت کرتی ہیں؟!
احکام اسلام کی تبلیغ اور ترویج میں ایک عام دین دارشخص سے بھی ممکن نہیں ہے کہ وہ کسی بات کو خدا اور رسول کی طرف نسبت دے دے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ امام تقیہ کرتے ہوئے ایک ناحق بات کو خدا کی طرف نسبت دے ؟!یہ حقیقت میں امام کے دین اور عصمت پر لعن کرنے کے مترادف ہے !(1)
جواب یہ ہے کہ اگر ہم تقیہ کی مشروعیت کو آیات کے ذریعے ثابت مانتے ہیں چنانچہ اہل سنت بھی اسے مانتے ہیں ، کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تقیہ کو حکم کلی قرار دیا ہے.
--------------
(1):- محسن امین، عاملی؛ نقض الوشیعہ ، ص ۱۷۹.