اولا ً : یہ بالکل بیہودہ بات ہے اور تاریخ کے حقائق سے بہت دور ہے .کیونکہ ہم آئمہ طاہرین کی زندگی میں دیکھتےہیں کہ بہت سارے موارد میں انہوں نے ظالم و جابر حکمرانوں کے ساتھ بہادرانہ طور پر جنگ و جہاد کئے ہیں چنانچہ امام موسیٰ کاظم (ع)نے اس وقت ، کہ جب ہارون نے چاہا کہ باغ فدک آپ کو واپس کریں ، ہارون الرشید کے کارندوں کے سامنے برملا عباسی حکومت کے نامشروع اور ناجائز ہونے کا اعلان فرمایا ، اور مملکت اسلامی کے حدود کو مشخص کیا .
ثانیا ً : ہدایت بشر ی صرف معارف اسلامی کا برملا بیان کرنے پر منحصر نہیں ہے ، بلکہ بعض اہم اور مؤثر افراد تک اپنی بات کو منتقل کرنا بھی کافی اور باعث بنتا تھا کہ سارے لوگوں تک آپ کا پیغام پہنچ جائیں.
شبہہ یہ ہے کہ اگر اس بات کو قبول کرلے کہ امام بعض فقہی مسائل کا جواب بطو رتقیہ دیں گے تو مسلماً ایسے موارد میں حکم واقعی (حرمت) کی بجائے (حلیت ) کا حکم لگے گا اور یہ سبب بنے گا شریعت میں تحلیل حرام اور تحریم حلال کا، یعنی حرام حلال میں بدل جائے گا اورحلال حرام میں(1)
اس شبہہ کا جواب یہ ہے کہ شیعوں کے نزدیک تقیہ سے مراد ؛اضطراری حالات میں بعنوان حکم ثانوی ،آیات اور روایات معصوم کی پیروی کرنا ہے .
تقیہ کا حکم بھی دوسرے احکام جیسے اضطرار، اکراہ ، رفع ضرر اور حرج کی طرح ہے ، کہ ایک معین وقت کیلئے حکم اولی کو تعطیل کرکے اس کی جگہ تقیہ والا حکم لگایا جاتا ہے .اور ان جیسے احکام ثانوی فقہ اہلسنت میں بھی ہر جگہ موجود ہے .
تقیہ ا یک حکم اختصاصی ہے یا عمومی؟
--------------
(1):- احسان الہی ظہیر؛ السنّہ والشیعہ، ص ۱۳۶.