خطیب بغدادی لکھتا ہے کہ جب عمر بن خطاب کو یہ اطلاع دی گئی کہ لوگوں کے درمیان میں حدیثوں کی کتابیں آئی ہیں یہ سن کر عمر بہت ناراض ہوگیا اور کہا: اے لوگو! مجھے خبر ملی ہے کہ تمھارے درمیان کتابیں آئی ہیں جو اختلافات کا باعث بن رہی ہیں، ان کو چھوڑ دیں ، بہترین کتاب ، اللہ کی کتاب ہے جو ان کے پاس سب سے زیادہ عزیز ہے تم سب اپنی اپنی کتابوں کو میرے پاس لے آئیں ، میں ان پر نظر ثانی کروں گا. لوگوں نے سوچا ، شاید وہ ان میں موجود اختلافات اور تعارض کو ایک معیار کے مطابق دور کرکے صرف ایک نسخہ میں تبدیل کرے گا ؛ لیکن جب اس کے پاس لائے گئے تو سب کو آگ لگادی(1)
قرضہ بن کعب روایت کرتا ہے : عمر نے کہا :میں احادیث نبی اکرم(ص) کیلئے سب سے زیادہ دلسوز تھا لوگوں کو مختلف جگہوں پر بھیجتاتھا اور انکو نصیحت کرتا تھا کہ زیادہ احادیث لوگوں کو مت کہا کریں .بلکہ زیادہ تر قرآن سے بتایا کریں .اور جن گھروں سے تلاوت کی آواز آرہی ہو ، ان کو منع نہ کریں اور ان کو حدیث میں مشغول نہ کریں،اورکہا : اقلوا الروایة عن رسول الله الا فیما یعمل به. (2) کم سے کم روایت نقل کریں ، سوائے ان روایات کے ، جواعمال سے مربوط ہو(3)
--------------
(1):- الطبقات الکبری، ج۵،ص۱۴۰.
(2):- تقیید العلم،ص۵۲.
(3):- تاریخ مدینہ دمشق، ج۶۷،ص۳۴۴. البدایہ و النہایہ ، ج۸،ص۱۱۵.