اس حصے میں درج ذیل مسائل کی بررسی کرنے کی ضرورت ہے :
1. قانون تقیہ پر اعتقاد رکھنا کیا صرف شیعہ امامیہ کے ساتھ مختص ہے یا دوسرے مکاتب فکر بھی اس کے قائل ہیں ؟اور اسے ایک الہی قانون کی حیثیت سے قبول کرتے ہیں ؟!
2. کیا تقیہ کوئی ایسا حکم ہے جو ہرجگہ اور ہرحال میں جائز ہے یا اس کے لئے بھی خاص زمان یا مکان اور دیگر اسباب کا خیال رکھنا واجب ہے ؟
3. کیا حکم تقیہ ،متعلّق کے اعتبار سے عام ہے یا نہیں ؟ بطوری کہ سارےلوگ ایک خاص شرائط میں اس پر عمل کرسکتے ہیں ؟ یا بعض لوگ بطور استثنا ہر عام و خاص شرائط کے بغیر بھی تقیہ کرسکتے ہیں ؟جیسے : پیغمبر و امام(ع)؟
۱ـ تقیہ یک حکم ثانوی عام ہے کہ سارے لوگ جس سے استفادہ کرسکتے ہیں .
۲ـ پیغمبران تقیہ سے مستثنی ہیں کیونکہ عقلی طور پر مانع موجود ہے شیخ طوسی اور اکثر مسلمانوں نے دوسرے احتمال کو قبول کئے ہیں کہ پیغمبر کیلئے تقیہ جائز نہیں ہے .کیونکہ اس کی شناخت اور علم اور رسائی صرف اور صرف پیغمبر کے پاس ہے
اور صرف پیغمبر اور ان کے فرامین کے ذریعے شریعت کی شناخت اور علم ممکن ہے .پس جب پیغمبر کیلئے تقیہ جائز ہو جائے تو ہمیں کوئی اور راستہ باقی نہیں رہتا جس کے ذریعے اپنی تکلیف اور شرعی وظیفہ کو پہچان لیں اور اس پر عمل کریں(1) اسی لئے فرماتے ہیں :فلا یجوز علی الانبیاء قبائح و لا التقیة فی اخبارهم لا نّه یؤدی الی التشکیک (2)
--------------
(1):- محمود یزدی؛ اندیشہ ہای کلامی شیخ طوسی،ص ۳۲۸.
(2):- التبیان ، ج۷ ، ص ۲۵۹.