23%

 یعنی انبیا کیلئے نہ عمل قبیح جائز ہے اور نہ اپنی احادیث بیان کرنے میں تقیہ جائز ہے.کیونکہ تقیہ آپ کے فرامین میں شکوک و شبہات پیدا ہونے کا باعث بنتا ہے. اور جب کہ ہم پر لازم ہے کہ ہم پیغمبر (ص) کی ہربات کی تصدیق کریں .اور اگر پیغمبر (ص) کے اعمال ، شرعی وظیفے کو ہمارے لئے بیان نہ کرے اور ہمیں حالت شک میں ڈال دے ؛ تو یہ ارسال رسل کی حکمت کے خلاف ہے پس پیغمبر (ص) کے لئے جائز نہیں کہ تقیہ کی وجہ سے ہماری تکالیف کو بیان نہ کرے .

شیخ طوسیپر اشکال : اگر ہم اس بات کے قائل ہوجائیں کہ پیغمبر(ص) کیلئے تقیہ جائز نہیں ہے تو حضرت ابراہیم  (ع)کا نمرود کے سامنے بتائی گئی ساری باتوں کیلئے کیا تاویل کریں گے  کہ بتوں کو آنحضرت ہی نے توڑ کر بڑے بت کی طرف نسبت دی ؟!اگر اس نسبت دینے کو تقیہ نہ مانے تو کیا توجیہ  ہوسکتی ہے ؟!

شیخ طوسی کاجواب:

آپ نے دو توجیہ کئے ہیں :

۱. بل فعلہ کو«ان کانوا ینطقون» کے ساتھ مقید کئے ہیں یعنی اگریہ بت بات کرتاہے تو  ان بتوں کوتوڑنے والا سب سے بڑا بت ہے .جب کہ معلوم ہے کہ بت بات نہیں کرسکتا.

۲. حضرت ابراہیم(ع) چاہتے تھے کہ نمرود کے چیلوں کو یہ بتا دے کہ اگر تم لوگ ایسا عقیدہ رکھتے ہو تو یہ حالت ہوگی پس آپ کا یہ فرمانا:« بل فعله کبیرهم» الزام کے سوا کچھ نہیں اور« انی سقیم» سے مراد یہ کہ تمھارے گمراہ ہونے کی وجہ سے روحی طور  سخت پریشانی میں مبتلا ہوں.

اسی طرح حضرت یوسف(ع) کا:« انّکم لسارقون» کہنا بھی تقیہ ہی تھا ، ورنہ جھوٹ قاموس نبوت سے دور ہے(1)

تمام انبیاءالہی کے فرامین میں توریہ شامل ہے اور توریہ ہونا کوئی مشکل کا سبب نہیں بنتا .اور توریہ بھی ایک قسم کا تقیہ ہے .ثانیا ً  انبیاء الہی کے فرامین احکام شرعی بیان کرنے کے مقام میں نہیں ہے .

--------------

(1):- .   ہمان ، ص ۲۶۰.