یہ سوال ہمیشہ سے لوگوں کے ذہنوں میں ابھرتا رہتا ہے کہ کیوں بعض آئمہ اور ان کے چاہنے والوں نے تقیہ کیا اور خاموش رہے ؟! لیکن بعض آئمہ نے تقیہ کو سرے سے مٹادئے اور اپنی جان تک کی بازی لگائی ؟!
اور وہ لوگ جو مجاہدین اسلام کی تاریخ ، خصوصا ً معاویہ کی ذلت بار حکومت کے دور کا مطالعہ کرتے تو ان کو معلوم ہوتا ،کہ تاریخ بشریت کا سب سے بڑا شجاع انسان یعنی امیر المؤمنین(ع) کا چہرہ مبارک نقاب پوش ہوکر رہ گیا جب یہ ساری باتیں سامنے آتی ہیں تو یہ سوال ذہنوں میں اٹھتا ہے کہ کیوں پیغمبر (ص) اور علی(ع) کے باوفا دوستوں کے دو چہرے کاملاً ایک دوسرے سے مختلف نظر آتا ہے :
ایک گروہ : جو اپنے زمانے کے ظالم و جابر حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کا مقابلہ کرنے پر اتر آتے ہیں ؛ جیسے میثم تمار ، حجر بن عدی، عبداللہ و... اسی طرح باقی آئمہ کے بعض چاہنے والوں نے دشمن اور حاکم وقت کے قید خانوں میں اپنی زندگیاں رنج و آالام میں گذارتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کئے .اور وحشتناک جلادوں کا خوف نہیں کھائے ، اور عوام کو فریب دینے والے مکار اور جبار حاکموں کا نقاب اتار کر ان کا اصلی چہرہ لوگوں کے سامنے واضح کردئے .
اور دوسرا گروہ : باقی آئمہ طاہرین کے ماننے والوں اور دوستوں میں بہت سارے ، جیسے علی ابن یقطین بڑی احتیاط کے ساتھ ہارون الرشید کے وزیراور مشیر بن کر رہے !
جواب : اس اشکال کا جواب امامیہ مجتھدین اور فقہا دے چکے ہیں : کہ کبھی تقیہ کو ترک کرتے ہوئے واضح طور پر ما فی الضمیر کو بیان کرنا اور اپنی جان کا نذرانہ دینا واجب عینی ہوجاتا ہے ؛ اور کبھی تقیہ کو ترک کرنا مستحب ہوجاتا ہے اور اس دوسری صورت میں تقیہ کرنے والے نے نہ کوئی خلاف کام کیا ہے ، نہ ان کے مد مقابل والے نے تقیہ کو پس پشت ڈال کر فداکاری اور جان نثاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ، جام شہادت نوش کرکے کوئی خلاف کام کیاہے