23%

امام صادق (ع)کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تقیہ بطور مطلق حرام نہیں ہے بلکہ وہ تقیہ حرام ہے جو زوال دین کا سبب بنتا ہو

لیکن وہ تقیہ واجب  یا مباح یا مستحب ہے جو زوال دین کا سبب نہیں بنتا .  اس کا مکتب تشیع قائل ہے

امام کی پیروی  اور تقیہ کے درمیان تناقض

اس شبہہ کو یوں بیان کیا ہے کہ شیعہ  آئمہ کی پیروی کرنے کا ادعا کرتے ہیں جبکہ آئمہ طاہرین نے تقیہ کرنا چھوڑ دئے ہیں ؛ جس کا نمونہ علی (ع)نے  ابوبکر کی بیعت کی ، اور امام حسین (ع)نے یزید کے خلاف جہاد  کیا(2)

اس شبہہ کا جواب :

اولاً :شیعہ نظریے کے مطابق تقیہ ایسے احکام میں سے نہیں کہ ہر حالت میں جائز ہو ، بلکہ اسے انجام دینے  کیلئے تقیہ اور حق کا اظہار کرنے  کے درمیان مصلحت سنجی کرناضروری ہے کہ تقیہ کرنے میں زیادہ مصلحت ہے یا تقیہ کو ترک کرنے میں زیادہ مصلحت ہے ؟ آئمہ طاہرین  بھی مصلحت سنجی کرتے اور عمل کرتے تھے. جیسا کہ اوپر کی دونوں مثالوں میں تقیہ کو ترک کرنے میں زیادہ مصلحت پائی جاتی ہے لہذا دونوں اماموں نے تقیہ کو ترک کیا اگر امام حسین (ع)تقیہ کرتے تو اپنے جد امجد (ص) کا دین نہیں بچتا

ثانیا: شیعہ سارے اماموں کی پیروی کرنےکو واجب سمجھتے ہیں اور ہمارے سارے آئمہ نے بعض جگہوں پر تقیہ کئے  ہیں اور بعض جگہوں پر تقیہ کو ترک کئے ہیں بلکہ اس سے بھی بالا تر کہ بعض مقامات پر تقیہ کرنے کا حکم دئے ہیں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کی زندگی میں کتنی سخت دشواریاں پیش آتی تھیں.

-------------

(2):- موسی موسوی؛ الشیعہ والتصحیح، ص۶۹.