7%

ثالثاً: تقیہ کے  بہت سے موارد ، جہاں خود آئمہ نے تقیہ کرنے کو مشروع قرار دئے ہیں ، جن کا  تذکرہ گذرچکا .

رابعاً: شبہہ پیدا کرنے والا خود اعتراف کررہا ہے کہ حضرت علی(ع)نے فقط چھ ماہ  بیعت کرنے سے انکار کیا پھر بعد میں بیعت  کرلی .یہ خود دلیل ہے سیرہ حضرت علی(ع) میں بھی تقیہ ہے

تقیہ اورفتوائے امام(ع)کی تشخیص

اس کے بعد کہ قائل ہوگئے کہ آئمہ بھی تقیہ کرتے تھے ؛ درج ذیل سوالات ، اس مطلب کی ضمن میں کہ اگر امام حالت تقیہ میں کوئی فتویٰ دیدے، تو کیسے پہچانیں گے کہ تقیہ کی حالت میں فتویٰ دے رہے ہیں یا عام حالت میں ؟!

جواب:

اس کی پہچان تین طریقوں سے ممکن ہے :

1.  امام کا فتوی ایسے دلیل کے ساتھ بیان ہوجو حالت تقیہ پر دلالت کرتی ہو

2.  فتوی دینے سے پہلے کوئی قرینہ موجود ہو ، جو اس بات پر دلالت کرے کہ حالت تقیہ میں امام نےفتوی دیا ہے .

3.  امام(ع) قرینہ اور دلیل کو فتوی صادر کرنے کے بعد ،بیان کرے کہ حالت تقیہ میں مجھ سے یہ فتوی صادر ہوا ہے

 تقیہ اورشیعوں کا اضطراب!

تقیہ  یعنی جبن و اضطراب کادوسرا  نام ہے ،اور شجاعت اور بہادری کے خلاف ہے جس کی وجہ سے اپنےقول و فعل میں، اورظاہر و باطن میں اختلاف کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے .اور یہ صفت ، رزائل اخلاقی کے آثار میں سے ہے اور اس  کی سخت مذمت ہوئی  ہے؛ لہذا خود امام حسین(ع)نے  کلمہ حق کی راہ میں تقیہ کے حدود کو توڑ کر شہادت کیلئے اپنے آپ کو تیار کیا(1)

--------------

(1):- .   دکتر علی سالوس؛ جامعہ قطربین الشیعہ و السنہ،ص۹۲.