تتمہ
وہ لوگ خود قابل مذمت ہیں
پہلے عرض کر چکا کہ تقیہ کہاں واجب ہے؟ کہاں مستحب ہے ؟ اور کہاں حرام ہے؟اور کہاں مکروہ و مباح ؟یہاں ہم بطور خلاصہ ان موارد کو بیان کریں گے تا کہ مکمل طور پر واضح ہو سکے :
تقیہ کا واجب ہونا :تقیہ کرنا اس وقت واجب ہوجاتا ہے کہ بغیر کسی فائدے کے ، اپنی جان خطرے میں پڑجائے .
تقیہ کا مباح ہونا:تقیہ اس صورت میں مباح ہوجاتا ہے کہ اس کا ترک کرنا ایک قسم کا دفاع اور حق کی تقویت کا باعث ہو. ایسے مواقع پر انسان فداکاری کرکے اپنی جان بھی دے سکتا ہے ،اسی طرح اسے یہ بھی حق حاصل ہے کہ وہ اپنے حق سے دست بردار ہوکر اپنی جان بچائے .
تقیہ کا حرام ہونا: اس صورت میں تقیہ کرنا حرام ہوجاتا ہے کہ اگر تقیہ کرنا، باطل کی ترویج، گمراہی کا سبب، اور ظلم وستم کی تقویت کا باعث بنتا ہو.ایسے موقعوں پر جان کی پروا نہیں کرنا چاہئے اور تقیہ کو ترک کرنا چاہئے .اور ہر قسم کی خطرات اور مشکلات کو تحمل کرنا چاہئے .
ان بیانات سے واضح ہوا کہ تقیہ کی حقیقت کیا ہے اور شیعوں کا عقلی اور منطقی نظریہ سے بھی واقف ہوجاتا ہے ، اس ضمن میں اگر کوئی تقیہ کی وجہ سے ملامت اور مذمت کرنے کے لائق ہے تو وہ تقیہ کرنے پر مجبور کرنے والے ہیں ، کہ کیوں آخر اپنی کم علمی کی وجہ سے دوسرے مسلمانوں کے جان و مال کے درپے ہوگئے ہو؟ او ر تقیہ کرنے پر ان کو مجبور کرتے ہو؟!!پس وہ لوگ خود قابل مذمت ہیں ، نہ یہ لوگ.کیونکہ تاریخ کے اوراق یہ بتاتے ہیں کہ معاویہ نے جب حکومت اسلامی کی باگ دوڑ مسلمانوں کی رضایت کے بغیر سنبھال لی تو اس کی خودخواہی اس قدر بڑھ گئی کہ جسطرح چاہے اور جو چاہے ، اسلامی احکام کے ساتھ کھیلتا تھا ، اور کسی سے بھی خوف نہیں کھاتے ، حتی خدا سے بھی !! خصوصاً شیعیان علی ابن ابیطالب کا پیچھا کرتے تھے ، ان کو جہاں بھی ملے ، قتل کیا کرتے تھے ، یہاں تک کہ اگر کسی پر یہ شبہہ پیدا ہوجائے کہ یہ شیعہ ہے تو اسے بھی نہیں