اگر دنیا میں کوئی کسی کو جلائے تو لوگ اسے شقی القلب کہتے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالی قیامت کے دن کئی ملیون انسان کو جلائے جب کہ ہم جانتے ہیں کہ وہ ارحم الراحمین ہے؟
ہم سب علم و حکمت الہی کی تجلی کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ وہ قانون مند ،نظم وضبط والی ذات ہے،اسی لئے اپنےحبیب سے کہا:نماز شب پڑھا کریں تاکہ تم مقام محمود تک پہنچ سکو۔یعنی بغیر علت کے معلول تک نہیں پہنچ سکتے۔
الف : اس عالم میں آگ جلانے والی ہے ہمارا گوشت اور کھال جلنے والا ہے۔انسان سے کہہ رہا ہے کہاپنے ہاتھ کو آگ کے نزدیک نہ لے جائیں تاکہ نہ جلےاور تجھے کوئی درد بھی نہ ہو اور مرے نہ۔ایسی صورت میں اگر کوئی کہے کہ میں اپنا ہاتھ جلانا چاہتا ہوں اور ہاتھ میں آگ ڈالے اور آگ اسے نہ جلائے۔
اسی طرح کہا گیا ہے کہ جو بھی کفر اختیار کرے یا مال یتیم کھائے یا حرام مال کھائے تو گویا آگ نگل رہا ہے جو تیری جسم کو جلائےگی۔ ایسی صورت میں اگر کوئی کہے کہ یہ بھی کوئی عدالت ہے ؟ میں کافر ہوجاوں یا ظلم کروں یا دوسروں کا مال کھاوں اور کوئی تکلیف اور درد بھی نہ ہو:
«إِنَّ الَّذِینَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَی ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِی بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِیرًا» (النساء، 10)
ترجمہ: بتحقیق وہ لوگ جو یتیموں کے اموال ان پر ظلم کرتے ہوے کھاتے ہیں حقیقت میں اپنے پیٹ میں آگ کھانے کے مترادف ہے اور وہ لوگ جلد جہنم میں پہنچیں گے