امام مالک نے لکھا ہے مؤذن حضرت عمر کے پاس آیا تاکہ اسے بتادے کہ صبح کا وقت داخل ہوگیا تو حضرت عمر سورہا تھا اس نے اونچی آواز میں کہا:«الصلاة خیر من النوم؛» عمر نے حکم دیا آج کے بعد سے نماز صبح کے اذا ن میں اس جملے کو ضمیمہ کیا جائے.
د: شافعی نے اس جملے کو ایک جگہ مکروہ اور دوسری جگہ بدعت قرار دیا ہے. اور شوکانی کہتا ہے :«لَو کانَ لما انکره عَلِیّ وابنُ عُمَر وَطاوس» (1)
اگر یہ اذان کا جزء ہوتا تو کبھی بھی حضرت علی(ع) اور عبداللہ بن عمر اور طاؤس اس پر اعتراض نہ کرتے .ٍ
ہ: ابن حزم کہتا ہے:«لا نقول بهذا الصَّلاةُ خَیرٌ مِنَ النَّومِ لانَّهُ لم یات عن رسول اللّه (ص)». (2)
ہم یہ جملہ اذان میں نہیں کہتے کیونکہ یہ جملہ رسول خدا (ص) سے نقل نہیں ہوا ہے.
تشہد میں علی ابن ابیطالب ؑ کی ولایت کا اقرار کرنا ہے ، یہ بحث تقریباً ۱۵ یا ۲۰ سال سے چل رہی ہے ۔ اس کی ابتداء پاکستان کا صوبہ پنجاب سے ہوئی ہے ۔ جن کا کہنا ہے کہ اگرکوئی تشہد میں ولایت علیؑ کا اقرار نہ کرے تو اس کی نماز باطل ہوجاتی ہے ، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر گندھی زبان استعمال کرتے ہیں کہ وہ اپنے باپ کی نسل نہیں ہے ۔ اسی بہانے مجتہدین کرام پر بھی لعن طعن کرتے ہیں اور جنہوں نے اپنی پوری زندگی احکام خدا و رسول اور آئمہ طاہرین ؑ کو حاصل کرنے اور ملت تشیع تک پہنچانے میں صرف کی اور نصف صدیاں اس اہم وظیفہ کے انجام دینے میں گزاری ، انہیں مقصر کہتے ہیں اور خود جو تمام احکامات سے بے خبر ہوکر صرف اس بات پرکہ نماز میں اشہدان علیاً ولی اللہ پڑھتا ہوں، مؤمن کہلاتے ہیں۔
--------------
(1):- المحلی، ج 3، ص 0 16.
(2):- عوالی اللئالی العزیزیة فی الاحادیث الدینیة / ج1 / 198 ۔