ہم جانتے ہیں کہ قوم لوط بدترین قوموں میں سے تھی اور جب شیخ الانبیاء ابراہیم (ع) نے ان کیلئے شفاعت کی کہ انہیں مہلت دی جائے تاکہ یہ لوگ توبہ کریں ؛ لیکن یہ لوگ پلیدگی اور برائی میں حد سے بڑھ گئے اور شفاعت کے قابل نہیں رہے تو ان کیلئے خطاب ہوا:
اے ابراہیم ان کیلئے اب طلب شفاعت کرنا چھوڑدو:
فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ إِبْراهِیمَ الرَّوْعُ وَ جاءَتْهُ الْبُشْری يُجادِلُنا فِی قَوْمِ لُوطٍ إِنَّ إِبْراهِیمَ لَحَلِیمٌ أَوَّاهٌ مُنِیبٌ یا إِبْراهِیمُ أَعْرِضْ عَنْ ه ذا إِنَّهُ قَدْ جاءَ أَمْرُ رَبِّكَ وَ إِنَّهُمْ آتِیهِمْ عَذابٌ غَيْرُ مَرْدُودٍ. (1)
"پھرجب ابراہیم کے دل سے خوف نکل گیا اور انہیں خوشخبری بھی مل گئی تو وہ قوم لوط کے بارے میں ہم سے بحث کرنے لگے.بے شک ابراہیم بردبار، نرم دل، اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے. (فرشتوں نے ان سے کہا) اے ابراہیم! اس بات کو چھوڑ دیں، بیشک آپ کے رب کا فیصلہ آچکا ہے اور ان پر ایک ایسا عذاب آنے والا ہے جسے ٹالا نہیں جا سکتا".
آئمہ (ع)سے غیر عادی کاموں کی درخواست کرنا کیا(جیسے ان سے شفا طلب کرنا) شرک نہیں ہے ؟
جواب:
سب سے پہلے تو انبیاء اور آئمہ (ع)کے توسط سے خارق العادہ کام انجام پانے میں کوئی مشکل نہیں ہے.
--------------
(1):- ہود ۷۴-۷۶.